تلنگانہ میں انتخابی ماحول

   

تلنگانہ میں انتخابی ماحول بتدریج پیدا ہوتا جا رہا ہے ۔ ہر جماعت کی جانب سے انتخابی تیاریوں کا آغاز کردیا گیا ہے ۔ در پردہ اوربالواسطہ سرگرمیاں بھی تیز ہوتی چلی جا رہی ہیں۔ کچھ جماعتیں عوام سے بھی رجوع ہونے لگی ہیں تو کچھ اپنی صفوں میں استحکام پیدا کرنے کے اقدامات بھی شروع کرچکی ہیں۔ تلنگانہ راشٹرا سمیتی نے خود کو بھارت راشٹرا سمیتی میں تبدیل کرتے ہوئے اپنے طور پر انتخابی تیاریوں کا آغاز کردیا ہے ۔بی آر ایس کے قیام کے بعد پارٹی سربراہ کے چندر شیکھر راؤ نے کھمم میں ایک بڑے جلسہ عام کا اہتمام کرتے ہوئے عملا انتخابی بگل بجا دیا ہے ۔ وہ قومی سیاسی منظر نامہ کو پیش نظر رکھتے ہوئے مختلف جماعتوںکے قائدین کو بھی مدعو کرچکے ہیں۔ چیف منسٹر دہلی اروند کجریوال ‘ چیف منسٹر پنجاب بھگونت مان اور چیف منسٹر کیرالا پی وجئین کے علاوہ سابق چیف منسٹر اترپردیش اکھیلیش یادو نے کے سی آر کے جلسہ میں شرکت کرتے ہوئے قومی سیاسی منظر نامہ کیلئے بھی ایک پیام دیدیا ہے ۔ کے سی آر اپنی پارٹی کو قومی سطح پر وسعت دینے کے جو منصوبے رکھتے ہیں ان میں ان قائدین کا رول اہمیت کا حامل ہوسکتا ہے ۔ خاص طور پر پی وجئین کی جلسہ میں شرکت ریاستی سیاست میں بھی اہم رول ادا کرسکتی ہے ۔ ریاست میںکمیونسٹ جماعتیں اپنے وجود کا احساس دلانے کوشاں ہیں۔ موجودہ سیاسی صورتحال میں بی آر ایس کو کمیونسٹ جماعتوں کی تائید و حمایت کی ضرورت پڑسکتی ہے ۔ اسی بہانے ریاست میں کمیونسٹ جماعتیں بھی اپنے کھوئے ہوئے مقام کو حاصل کرنے کی جدوجہد میں جٹ گئی ہیں۔ اس صورتحال سے دوسری جماعتیں بھی با خبر ہیں اور وہ اپنی حکمت عملی کو قطعیت دینے کی تیاریاں کر نے میں جٹ گئی ہیں۔ جہاں تک بی جے پی کی بات ہے تو بی جے پی بہت پہلے سے انتخابی ماحول میں کام شروع کرچکی ہے ۔ بوتھ سطح تک کی حکمت عملی بنائی گئی ہے لیکن اس پر عمل کرنا پارٹی کے ریاستی قائدین کیلئے مشکل ہوتا جا رہا ہے ۔ پارٹی کی مرکزی قیادت ریاستی قائدین کی کارکردگی اور ان کے پروگرامس سے مطمئن نہیں ہے اور اس کیلئے نئی حکمت عملی تیار کرنے کی کوششیں بھی در پردہ جاری ہیں۔
بی جے پی اور بی آر ایس ایک دوسرے کے خلاف الزامات اور جوابی الزامات کا سلسلہ بہت پہلے سے شروع کرچکی ہیں۔ دونوں کی در پردہ حکمت عملی یہی ہے کہ عوام کے ذہنوں سے کانگریس کو محو کردیا جائے ۔ اس تاثر کو کام کردیا جائے کہ ریاست میں اصل مقابلہ بی آر ایس اور بی جے پی کے درمیان ہی ہے ۔ جہاں بی جے پی اور بی آر ایس اپنی حکمت عملی کو آگے بڑھانے میں مصروف ہیں وہیں وائی ایس شرمیلا کو ساتھ ملانے کیلئے بھی بی جے پی سرگرم ہوگئی ہے ۔ شرمیلا کی وائی ایس آر تلنگانہ پارٹی عزائم کو واضح کئے بغیر عوام تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش ضرور کر رہی ہے ۔ اسی طرح تلگودیشم نے بھی اپنے طور پر انتخابی تیاریاں شروع کردی ہیں۔ یہ ابھی واضح نہیںہوسکتا کہ ان جماعتوں کو عوام کی تائید کس حد تک حاصل ہوسکتی ہے اور یہ تائید ووٹوںمیں کس حد تک تبدیل ہوسکتی ہے ۔ بی جے پی کی جانب سے تلگودیشم سے اتحاد کے امکانات کو مسترد کیا جا رہا ہے لیکن پون کلیان کی جنا سینا نے تلنگانہ کے تعلق سے اپنے عزائم کو واضح کرنا شروع کردیا ہے ۔ وہ بھی انتخابی میدان میں کودنے کو تیار ہوچکی ہے ۔ کانگریس اپنی جگہ حکمت عملی بنانے میںمصروف ہے ۔وائی ایس تلنگانہ پارٹی ‘ جنا سینا اور تلگودیشم کی سرگرمیوں سے بی آر ایس اور بی جے پی کے عزائم اور منصوبوںمیںپیچیدگی پیدا ہوسکتی ہے اور ان کی جو تیاریاں ہیں ان پر نظر ثانی کی ضرورت بھی پڑسکتی ہے ۔ تاہم جب باضابطہ انتخابی بگل بج جائے گا تب صورتحال کو بہتر انداز میںسمجھنے میں مددمل سکتی ہے ۔
جہاں تک کانگریس کا سوال ہے تو انتہائی کمزور حالت میں بھی تلنگانہ کی سیاست سے کانگریس کے وجود کا انکار نہیںکیا جاسکتا ہے ۔ کانگریس نے جو تیاریاںشروع کی ہیں وہ اپنے طور پر مشکلات کا شکار ضرور ہیں اور پارٹی کی صفوںمیں اتحاد کا اب بھی فقدان پایا جاتا ہے ۔ ایسے میںپارٹی کو اس پہلو پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہوگی ۔ راہول گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا نے پارٹی کیڈر میں نیا جوش پیدا کیا ہے ۔ اب ریونت ریڈی کی ہاتھ سے ہاتھ جوڑو یاترا بھی شروع ہونے والی ہے اور یقینی طور پر اس کے بھی ریاست کے انتخابی امکانات پر اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ ہر جماعت کی انتخابی تیاریوں کے باعث صورتحال گنجلک ہوسکتی ہے اور ابھی یہ کہا نہیں جاسکتا کہ موجودہ انتخابی تیاریاں قطعی مرحلہ میں کیا رنگ اختیار کریں گی ۔