تلنگانہ میں بلدی انتخابات

   

آرائشِ افکار کے دن بیت گئے ہیں
اب جرأتِ گفتار کرو موسم گل ہے
تلنگانہ میں بلدی انتخابات
تلنگانہ کی حکمراں ٹی آر ایس پارٹی کو ریاست میں 22 جنوری کو ہونے والے میونسپل انتخابات میں آسانی سے اکثریت ملتی دکھائی دے رہی ہے کیوں کہ کانگریس اور بی جے پی نے اپوزیشن کی حیثیت سے اپنے وجود کا احساس نہیں دلایا ۔ دونوں کانگریس اور بی جے پی نے ان انتخابات میں 120 میونسپلٹیز اور کارپوریشنوں کے 3052 وارڈس کے لیے اپنے امیدوار کھڑا کیے ہیں ۔ ملک گیر سطح پر شہریت قانون کے خلاف جاریہ احتجاج کے دوران ٹی آر ایس حکومت نے بلدی انتخابات کروا کر عوام کے نبض کو ٹٹولنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ اپوزیشن کو بہت پیچھے چھوڑتے ہوئے ٹی آر ایس کو بھاری اکثریت حاصل ہوئی ہے تو سی اے اے کے خلاف جاری احتجاج کے ساتھ ٹی آر ایس نے عملی طور پر شامل ہونے کے بجائے زبانی طور پر اس احتجاج کی حمایت کی ہے ۔ سی اے اے کو لے کر بی جے پی کا موقف اپوزیشن پارٹیوں کی رائے کے مغائر ہے ۔ عوام کی توجہ اپنی جانب مبذول کروانے کی کوشش اور رائے دہندوں کی دل جوئی کرنے والے ٹی آر ایس قائدین کو اس مسئلہ پر فیصلہ کرنے سے قبل غور کرنا ہوگا کہ ہر حلقے سے صرف ایک ہی امیدوار جیتے گا ، باقی سب ہار جائیں گے ۔ جو جیتے گا وہ پانچ سال تک نظر نہیں آئے گا ۔ منتخب لیڈر کے رائے دہندے اپنے کارپوریٹر کو تلاش کرتے رہیں گے مگر وہ عوام کے درمیان دکھائی نہیں دے گا ۔ ٹی آر ایس کے قائدین کا یہی حال ہے وہ پانچ سال تک غائب رہ کر پھر سے بلدی چناؤ میں نظر آرہے ہیں ۔ عوام کی مزاج پرسی کرنے کی نیت سے ان لیڈروں کی آمد پر ردعمل ظاہر کرنے والے قائدین کی آوازیں حکمراں پارٹی کے ایوان میں سنائی نہیں دے رہی ہیں ۔ جتنے والے ہارنے والوں کے سینوں پر مونگ دلنے کے لیے اس طرح جشن منائیں گے کہ سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر حصہ لیں گے جو حکومت کررہے ہیں انہیں دوبارہ اقتدار مل جائے تو وہ اپنا کام وہیں سے شروع کریں گے جہاں چھوڑا تھا اور وہی کچھ کریں گے جو حکومت سے باہر تھے ۔ انہیں اگر حکومت مل گئی تو وہ بھی وہی کچھ کریں گے جو پچھلی حکومت کررہی تھی ۔ یعنی کچھ نہیں کریں گے عوام کو بہت کچھ کرنے کے تیقنات دیں گے ۔ سابق انتخابات میں جو وعدے کئے گئے تھے انہیں پورا نہیں کیا گیا ۔ ریاست تلنگانہ میں 17 لوک سبھا انتخابات میں کامیاب ہونے کی کوشش میں ٹی آر ایس کو شدید دھکہ پہونچا تھا لیکن بلدی انتخابات میں ٹی آر ایس کا موقف کس قدر مضبوط ہوگا یہ بات کل تک معلوم ہوجائے گی ۔ بلا شبہ حکمراں پارٹی کو ہی اس کامیابی کا سہرا پہنا پڑے گا ۔ لیکن اس کے لیے وعدوں کو روبہ عمل لانے والی پارٹی بن جانے کی ضرورت ہے ۔ تلنگانہ کی موجودہ سیاست سے یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ کانگریس اور بی جے پی نے تمام حلقوں میں اپنے امیدوار کھڑا نہیں کیے ہیں ۔ بعض پارٹیوں کو امیدوار بنانے کے لیے ایک ایماندار لیڈر کی ضرورت ہے ۔ بی جے پی اور کانگریس کے پاس اس طرح کے لیڈروں سے بچ کر رہنا ضروری ہے ۔ ریاست میں ٹی آر ایس کی حکومت پر تنقیدیں کرنے والے زیادہ ہے ۔ ریاست میں سب سے بڑی تبدیلی کیا آئے گی جب کہ ٹی آر ایس نے اربن پالیسی میں متعلقہ باتوں کو شامل نہیں کیا گیا تو اس کا سوال اٹھانے کی ضرورت ہے ۔ بلدی قوانین میں تبدیلی سے کئی ترقیاتی کام انجام دئیے جاسکتے ہیں ۔ شہر حیدرآباد اب حرکیاتی شہر میں شمار ہوگیا ہے ۔ لہذا حیدرآباد کے تعلق سے حکمراں طبقہ کو چوکس رہنا ہوگا ۔ ریاست میں تالابوں پر قبضے اور ناجائز تعمیرات جاری ہیں ۔ جی ایچ ایم سی نے خود اسی سال یہ اعتراف کیا تھا کہ 12 لاکھ غیر قانونی تعمیرات ہورہے ہیں ۔ جب سے ٹی آر ایس آئی ہے ریاست میں اضلاع کی تعداد بھی 33 کردی گئی ۔ زیادہ اضلاع ہوں گے تو نظم و نسق میں بہتری آئے گی لیکن چار منزلہ عمارتیں کم ہیں پانچ منزلیں ہی ہر کوئی ڈالتا ہے ۔ کئی منڈل ہیڈکوارٹرس اب ڈسٹرکٹ ہوچکے ہیں اس لیے یہ موقع ہے کہ پارٹی قائدین کو عوام کی خدمت کیلئے چھوڑ دیا جائے اور یہ یقینی بنایا جائے کہ بلدی کام انجام دینے میں کوئی کوتاہی نہیں ہوگی ۔۔