تلنگانہ میں دواخانوں کی حالت ِزار

   

وہ خیالوں میں کہیں شعلہ کہیں شبنم رہے
ایک اندازِ کرم کے مختلف عالم رہے
تلنگانہ میں دواخانوں کی حالت ِزار
کورونا وائرس کی وباء نے حالات کو انتہائی ابتر اور سنگین کردیا ہے ۔ ہر روز سینکڑوں افراد اس وائرس کا شکار ہو رہے ہیں اور اموات بھی ہوتی جا رہی ہیں۔ جو سرکاری اعداد و شمار ہیں وہ صرف دواخانوں سے رجوع ہونے والے افراد کے ہیں جبکہ بے شمار لوگ ایسے ہیں جو خوف کے عالم میں سرکاری یا خانگی کسی دواخانے سے رجوع ہونے سے گریز کر رہے ہیں۔ جو لوگ کسی بھی عارضہ کیلئے دواخانوں سے رجوع ہو رہے ہیں وہ عملا ًدر در کی ٹھوکریں کھانے کیلئے مجبور کردئے گئے ہیں۔ دواخانوں میں مریضوں کے ساتھ اور ان کے رشتہ داروں کے ساتھ کھلواڑ کیا جا رہا ہے ۔ کوئی ذمہ دار فرد ایسا نہیں ہے جو عوام کو قدرے سکون کے ساتھ کوئی جواب دے سکے یا ان کی داد رسی کی جاسکے ۔ سرکاری دواخانوں میں ڈاکٹرس کی تاناشاہی چل رہی ہے ۔ عوام اور مریضوں کے رشتہ داروں سے سیدھے منہ بات کرنا یہ لوگ کسر شان سمجھتے ہیں۔ اگر کوئی سوال کیا جاتا ہے تو سرکاری ڈاکٹر یا سرکاری دواخانہ کا عملہ ہونے کی ڈھاک بٹھائی جاتی ہے ۔اگر کوئی مریض یا اس کے رشتہ دار زیادہ سوال کرنے لگیں تو پولیس میں شکایت کا خوف دلایا جاتا ہے ۔ سکیوریٹی عملہ الگ سے دھمکانے والا رویہ اختیار کرتا ہے ۔ جو لوگ انتہائی پریشانی کے عالم میں زندگی اور موت کی کشمکش میں دواخانوں سے رجوع ہوتے ہیں ان سے انتہائی ہمدردی اور انسانیت والا رویہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کی داد رسی کی جانی چاہئے لیکن ریاست میں سرکاری دواخانوں اور خانگی دواخانوں دونوں کا رویہ مریضوںاور عوام کے ساتھ انتہائی نامناسب ہوگیا ہے ۔ اب تک زندہ مریضوں کومردہ تک قرار دیا جا رہا ہے اور جو لوگ دواخانوں میںفوت ہو رہے ہیں ان کی نعشیں تک بدل دی جا رہی ہیں۔ جو لوگ دواخانے میں زیر علاج ہوتے ہیں ان کا کوئی اتہ پتہ نہیں چلتا اور کئی دن بعد پتہ چلتا ہے تو وہ بھی صرف یہ کہیں نعش دستیاب ہوگئی ہے ۔ گذشتہ دنوں میں ایسے بے شمار واقعات پیش آئے ہیں جن سے دواخانوں کے تعلق سے عوام میں جو شبہات تھے وہ مزید گہرے ہوگئے ہیں اور ایک طرح سے دواخانوں کی پول کھل گئی ہے ۔
ساری ریاست میں اور خاص طور پر گریٹر حیدرآباد کے حدود میں ایک طرح کی ہیلت ایمرجنسی والی صورتحال ہے ۔ لوگ خوف کا شکار ہوگئے ہیں۔ روزآنہ سینکڑوں کی تعداد میں کورونا سے متاثر ہوتے جا رہے ہیں۔ شہر کا کوئی علاقہ اور کوئی حلقہ ایسا نہیں رہ گیا ہے جہاں کورونا کی دہشت دکھائی نہیں دے رہی ہو یا جہاں متاثرین نہ ہوں۔ ایسے میں اگر لوگ انتہائی مجبوری کے عالم میں خانگی دواخانوں سے رجوع ہو رہے ہیں تو پہلے ان کی مالی حالت کا اندازہ کیا جا رہا ہے ۔ یہ علاج کے مقدس پیشے کے ساتھ کھلواڑ ہے ۔ مریضوں کو دواخانوںمیں بستر تک الاٹ کرنے سے گریز کیا جا رہا ہے اور مریض کو ابتدائی طبی امداد پہونچانے سے قبل ہی ان کے جیب ٹٹولے جا رہے ہیں۔ یہ اس مقدس پیشے کے ساتھ دھوکہ اور فریب ہے ۔ خانگی دواخانوں سے مایوس ہو کر جب لوگ سرکاری دواخانوں سے بحالت مجبوری رجوع ہو رہے ہیں تو وہاں کی صورتحال تو اور بھی خستہ ہے ۔ پہلے تو انہیں دواخانوں میں داخلے سے قبل ہی کئی طرح کے سوالات کا شکار ہونا پڑ رہا ہے ۔ اگر وہ دواخانہ کے اندر پہونچ بھی جائیں تو وہاں بھی کوئی ذمہ دارفرد موجود نہیں ہوتا کہ مریضوں کی یا ان کے رشتہ داروں کی رہنمائی کرسکے ۔ کئی گھنٹے یہ تک پتہ نہیں چلتا کہ مریضوں کو کہاں رجوع ہونا چاہئے اور کس سے رابطے کرتے ہوئے وہ طبی امداد حاصل کرسکتے ہیں۔ اگر کسی طرح داخلہ مل بھی جائے تو پھر ڈاکٹرس کا رویہ ان کیلئے سوہان روح ہی بن جاتا ہے اور وہاں بھی ان کو خاطر خواہ مدد نہیں ملتی ۔
اس ساری صورتحال کو میڈیا اور سوشیل میڈیا میں موثر انداز میں پیش بھی کیا جا رہا ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ حکومت اس تعلق سے بالکل ہی بے تعلق ہوگئی ہے ۔ حکومت کو عوام کی صحت یا ان کو طبی نگہداشت کی سہولتیں فراہم کرنے سے عملا کوئی دلچسپی نہیں رہ گئی ہے ۔ وہ صرف کورونا کے اعداد و شمار جمع کرنے اور دو ایک دواخانوں میں کچھ اقدامات کرکے بری الذمہ ہونے لگی ہے ۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ حکومت کے ذمہ داران بلکہ خود چیف منسٹر اس مسئلہ کا جائزہ لیں اور ریاست کے تمام دواخانوں کی صورتحال پر رپورٹ طلب کریں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ جو لوگ سرکاری اور خانگی دواخانوں سے رجوع ہو رہے ہیں ان کی وہاں داد رسی ہو ۔ ان کے ساتھ بہتر سلوک ہو اور انہیں بہتر علاج فراہم کیا جائے ۔