تلنگانہ میں لوک سبھا انتخابات

   

لوک سبھا انتخابات 2019 کی تواریخ کا اعلان ہونے کے بعد تلنگانہ میں سب سے پہلے مرحلے میں 11 اپریل کو رائے دہی مقرر کی گئی ہے ۔ اس ریاست میں پارٹیوں کو صرف ایک ماہ کی قلیل مدت سے بھی کم میں انتخابی مہم چلانا ہے ۔ حکمراں پارٹی تلنگانہ راشٹرا سمیتی کو لوک سبھا انتخابات میں کسی طاقتور حریف کا سامنا نہیں ہے ۔ اسمبلی انتخابات کی طرح ٹی آر ایس کو یقین ہے کہ وہ 17 لوک سبھا نشستوں کے منجملہ 16 پر کامیابی حاصل کرے گی ۔ پارٹی کی اس حد سے زیادہ خود اعتمادی کو اگر نظر انداز نہ کردیا جائے تو اپوزیشن پارٹیوں کے لیے یہ انتخابات بڑا چیلنج ہوں گے ۔ خاص کر قومی پارٹیوں کانگریس اور بی جے پی کے لیے تلنگانہ میں ووٹ حاصل کرنا ایک مشکل بات ہوگی ۔ عوام کے اندر صرف ٹی آر ایس کی لہر پیدا ہونے کا دعویٰ کرنے والے ٹی آر ایس قائدین کی اس خود اعتمادی کی اصل وجہ چیف منسٹرکے چندر شیھر راؤ کی مقبولیت اور ان کی فلاحی اسکیمات کو سمجھا جارہا ہے تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ آیا فلاحی اسکیمات کی فراہمی کے لیے دیگر پارٹیاں بھی تیار ہیں ۔ مرکز میں بی جے پی حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس نے ہر ریاست کے عوام کے حق میں فلاح و بہبود کے کئی کام انجام دئیے ہیں ۔ بی جے پی کے دعویٰ کے مطابق ووٹ اسے ملنا چاہئے ۔ کانگریس کا دعویٰ ہے کہ وہ ملک کی قدیم ترین پارٹی ہے اور متحدہ آندھرا پردیش میں سب سے زیادہ حکمرانی کا اعزاز اسے ہی حاصل ہے تو وہ بھی تلنگانہ کے عوام کے ووٹ لینے کی مستحق ہوگی ۔ حکمراں ٹی آر ایس اور اپوزیشن پارٹیوں کو رائے دہندوں تک پہنچ کر اپنے منصوبوں اور وعدوں کو پیش کرنے کے لیے بہت کم وقت رہ گیا ہے۔

اس لیے امیدواروں کو خاص کر اپوزیشن پارٹیوں کے امیدوار اپنے ذہن میں عوام کی بہبود و فلاح کی اسکیمات رکھتے ہوئے رائے دہندوں سے رجوع ہونا ہے ۔ اگر اپوزیشن قائدین اپنے ذاتی مفاد سے بالاتر ہو کر عوام کے حق میں کام کرنے کا مظاہرہ کرتے ہیں تو عوام کا ووٹ ان کے لیے مختص ہونا یقینی ہے لیکن ووٹ لینے کے بعد عوام کے درمیان سے غائب ہوجانے کی بری عادت سے ہی آج کئی قائدین کا قد عوام کی نظروں میں کم ہوگیا ہے ۔ عوام ایک صاف ستھرا نظم و نسق اور موثر حکمرانی چاہتے ہیں ۔ عوام کو صرف پروپگنڈہ کرنے والے یا جھوٹے وعدوں کے ذریعہ ووٹ حاصل کرنے کا منصوبہ رکھنے والے پسند نہیں ہوتے ۔ سوال یہ ہے کہ آیا اپوزیشن قائدین عوام کے اس جذبہ کسوٹی پر کھرے اترپائیں گے ۔ تلنگانہ میں کے سی آر نے اپنا غلبہ حاصل کرلیا ہے ۔ اس کی وجہ سے ہر کوئی واقف ہے ۔ حالیہ اسمبلی انتخابات میں پارٹی ووٹ حاصل کرنے کے بعد ان کی حکومت کو کوئی خطرہ نہیں ہے لیکن لوک سبھا انتخابات کے نتائج بھی اسمبلی نتائج کا عکس ہوں گے یا نہیں یہ اپوزیشن قائدین کی محنت پر منحصر ہے ۔ وہ جتنی سخت محنت کریں گے اور رائے دہندوں کو راغب کرنے میں کامیاب ہوں گے ، ووٹ انہیں ملنا یقینی سمجھا جائے گا ۔ لیکن دیکھا یہ جارہا ہے کہ اپوزیشن اپنے وجود کا احساس دلانے میں ہی بری طرح ناکام ہے ۔ کانگریس کو اگرچیکہ قومی سطح پر پیشرفت کرنے کا موقع ملتا دکھائی دے رہا ہے مگر تلنگانہ میں وہ سیاسی ہلچل پیدا کرنے میں پیچھے دکھائی دیتی ہے ۔ تلگو دیشم نے تلنگانہ کے قیام کے بعد اپنا سیاسی وجود ہی کھو دیا ہے تو اسے یہاں جدوجہد کرنے کا ثمر حاصل نہیں ہوسکے گا ۔ بی جے پی تو بہت دور ہے ۔ لہذا یہ لوک سبھا انتخابات تلنگانہ میں صرف ایک رخی ثابت ہوں گے ۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ یہی کہتے آرہے ہیں کہ تلنگانہ کے رائے دہندے مرکز میں وفاقی جذبہ و نظریہ کو مضبوط بنانے میں مدد کریں گے ۔ کے سی آر کا عزم ہے کہ مرکزی سطح پر ٹی آر ایس کو اہم رول ادا کرنے کا موقع پیدا کریں ۔ لوک سبھا انتخابات کے بعد 17 حلقوں والی ریاست تلنگانہ کو مرکز میں مرکزی کردار ادا کرنے کا موقع ملتا ہے تو وفاقی جذبہ کو تقویت حاصل ہوگی اور کے سی آر کا دیرینہ خواب بھی پورا ہوگا ۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ آیا پارلیمنٹ میں علاقائی پارٹیوں کی آواز کو مضبوط بنانے کا موقع مل سکے گا کیوں کہ قومی مزاج اور علاقائی سوچ میں فرق ہوتا ہے اور یہ فرق کتنا ہوگا یہ تو 23 مئی کے بعد ہی معلوم ہوگا ۔۔