تلنگانہ کا اقلیتی بجٹ

   

تمہارے وعدہ کے بعد جیسے نہ صبح آئی نہ شام آئی
کہ عمر گزری تمہارا وعدہ نہ کل ہی بدلا نہ آج بدلا
تلنگانہ اسمبلی میں ریاست کا بجٹ برائے 2022-23 پیش کردیا گیا ۔ حکومت نے اس سال ریاست کے مجموعی بجٹ میں بھاری اضافہ کیا ہے ۔ ہر شعبہ کیلئے ہزاروں کروڑ روپئے مختص کرتے ہوئے حکومت نے اپنی ترجیحات واضح کرنے کی کوشش کی ہے ۔ اقلیتوں کیلئے بھی حکومت نے بجٹ میں اضافہ کیا ہے ۔ اقلیتی بجٹ میںماضی میںکٹوتی کی گئی تھی ۔ اس طرح اس بار جو اضافہ ہوا ہے وہ اضافہ کی بجائے بحالی کہا جاسکتا ہے ۔تاہم یہ ضرور ہے کہ اقلیتوں کیلئے بجٹ میں رقم میں اضافہ ہوا ہے لیکن اصل سوال یہ ہے کہ یہ رقم خرچ بھی کی جائے گی یا نہیں ۔ صرف بجٹ میں اعدادو شمار کو شامل کرتے ہوئے اقلیتوں کو خوش کرنے کی کوشش تو نہیں کی جا رہی ہے ۔ اکثر و بیشتر دیکھا گیا ہے کہ اقلیتوں کیلئے بجٹ میں رقومات تو مختص کی جاتی ہیں لیکن انہیں خرچ نہیں کیا جاتا ۔ ہر سال سینکڑوں کروڑ روپئے کی رقم سرکاری خزانہ میں واپس بھیج دی جاتی ہے ۔ یہ سرکاری عہدیداروں کی کارستانی ہوتی ہے ۔ پہلے تو اقلیتی بہبود سے تعلق رکھنے والے جو عہدیدار ہیں وہ خود ان رقومات کو خرچ کرنے سے زیادہ دلچسپی نہیں رکھتے ۔ اقلیتوں کیلئے اسکیمات پر مناسب عمل آوری نہیں ہوتی ۔ جو اسکیمات موجود ہوتی ہیں ان کیلئے رقومی کئی بار کی نمائندگیوں کے باوجود جاری کرنے سے گریز کیا جاتا ہے ۔ نت نئے بہانوں کے ذریعہ رقومات کی اجرائی میں رکاوٹیں پیدا کی جاتی ہیں۔ دوسرے طبقات کیلئے جو رقومات مختص کی جاتی ہیں ان کی اجرائی میں انتہائی چستی و مستعدی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے ۔جتنی رقومات مختص کی جاتی ہیں ضرورت پڑنے پر ان سے زیادہ رقومات کی اجرائی بھی عمل میں لائی جاتی ہے ۔ اس کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ تاہم جہاں تک اقلیتوں کی بات آتی ہے تو بجٹ کی اجرائی کیلئے کئی طرح کی رکاوٹیں پیدا کی جاتی ہیں۔ کہیں ضابطوں کی بات کی جاتی ہے تو کہیں قواعد و اصولوں کا حوالہ دیا جاتا ہے ۔ کہیں کسی اور بہانے سے تو کبھی کسی اور طریقے سے یہ رقومات جاری کرنے سے گریز کیا جاتا ہے ۔ محکمہ فینانس کی جانب سے سب سے زیادہ رکاوٹیں پیدا کی جاتی ہیں اور اقلیتوں کیلئے جو معمولی سی رقومات مختص کی جاتی ہیں وہ جاری بھی نہیں ہوتیں
جہاں تک اقلیتی بہبود کے متعلقہ عہدیداروں کی بات ہے تو یہ عہدیدار رقومات خرچ کرنے کیلئے آمادہ نہیں رہتے ۔ حکومت سے رقومات کی اجرائی کیلئے نمائندگی ہی بہت تاخیر سے کی جاتی ہے ۔ اس کے بعد محکمہ فینانس سے رجوع ہونے میں پس و پیش کا اظہار کیا جاتا ہے ۔ رقومات کی اجرائی کیلئے مسلسل نمائندگی سے گریز کیا جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جو رقومات مختص کی بھی جاتی ہیں ان کی اجرائی عمل میں نہیں آتیں اورجو رقومات موجود ہوتی ہیں انہیں خرچ نہیں کیا جاتا ۔ ہر سال سینکڑوں کروڑ روپئے سرکاری خزانہ میں واپس بھیجے جاتے ہیں جبکہ کسی اور محکمہ سے رقومات کی واپسی نہیں ہوتی ۔ کئی محکمہ جات کو تو اضافی رقومات جاری کی جاتی ہیں۔ ایسے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ ریاست کی اقلیتوں کیلئے جو رقومات مختص کی گئی ہیں ان کی مکمل اجرائی کو حکومت کی جان سے یقینی بنایا جائے ۔ متعلقہ عہدیداروں کو پابند بنایا جائے کہ اس محکمہ کی رقومات کو کسی رکاوٹ کے بغیر سرعت کے ساتھ جاری کیا جاسکے تاکہ اقلیتوں کو ان رقومات سے جو معمولی سی راحت ہوسکتی ہے وہ دستیاب کروائی جاسکے۔ اگر یہ جائزہ لیا جائے کہ دیگرطباقت کو حکومت سے کتنی رقومات جاری کی گئی ہیں تو یہ واضح ہوجائیگا کہ اقلیتوں کو رقومات مختص کرنے میں بھی نا انصافی ہوتی رہی ہے ۔ اقلیتوں سے وعدے تو بہت زیادہ کئے جاتے ہیں اور انہیں ہتھیلی میں جنت دکھائی جاتی ہے لیکن جب ان وعدوں پر عمل کرنے کا وقت آتا ہے تو ہر کوئی اپنا دامن بچانے لگ جاتا ہے ۔
ریاستی حکومت کی جانب سے محکمہ اقلیتی بہبود کے عہدیداروں کو بھی پابند بنایا جانا چاہئے کہ وہ مختص کردہ رقومات کے خرچ کو یقینی بنائیں۔ جن عہدیداروں کی جانب سے اپنے فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی محسوس کی جائے ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے ۔ عہدیداروں کو جوابدہ بنایا جانا چاہئے ۔ ضرورت پڑنے پر اضافی رقم کی اجرائی سے بھی گریز نہیں کیا جانا چاہئے کیونکہ جو رقم مختص کی گئی ہے وہ اقلیتوں کی آبادی کے تناسب سے انتہائی کم ہے ۔ اس معمولی رقم کے خرچ میں بھی کسی طرح کی رکاوٹ نہیں ہونی چاہئے ۔ حکومت کو ان امور پر غور کرتے ہوئے مناسب اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔