تلگو زبان سے ڈاکٹریٹ کا حصول قابل ستائش

   

بانسواڑہ کی آفرین بیگم کی تہنیتی تقریب، ایم ایل سی کے کویتا کا خطاب

نظام آباد :کاماریڈی کے بانسواڑہ قصبہ سے تعلق رکھنے والی آفرین بیگم نے تلگو زبان سے ڈاکٹریٹ حاصل کرتے ہوئے ایک مثال قائم کی اور یہ ثابت کیا کہ کسی بھی زبان کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ آفرین بیگم نے یہ سنگ میل انتہائی قلیل عرصہ میں طئے کیا۔ تلنگانہ یونیورسٹی نے انہیں تلگو ادب سے متعلق تحقیق پر گزشتہ سال کے اواخر میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری تفویض کی۔ تلنگانہ رکن قانون ساز کونسل محترمہ کلواکنٹلہ کویتا نے آفرین بیگم کو اپنی رہائش گاہ واقع حیدرآباد پر مدعو کیا اور ان کے اس کارنامہ پر ان کی زبردست ستائش کرتے ہوئے ان کی شال پوشی کرتے ہوئے تہنیت پیش کی اور میمورنڈم بھی پیش کیا۔ رکن قانون ساز کونسل نے آفرین بیگم کی اس کامیابی کونہ صرف مسلم بلکہ ہر طبقہ کی لڑکیوں کیلئے مثالی قراردیا اور کہا کہ لڑکیاں اگر عزم و حوصلہ سے کام لیں تو کوئی کام مشکل نہیں۔ کے کویتا نے کہا کسی بھی زبان کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اور آفرین بیگم نے اسے ثابت کیا ہے۔ کویتا نے کہا کہ ایک مسلم لڑکی ہوتے ہوئے تلگو زبان سے ادب میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنا قابل تحسین و مبارکباد ہے۔ آفرین بیگم نے رکن قانون ساز کونسل کا شکریہ ادا کیا۔ اس تہنیتی تقریب میں تلنگانہ جاگرتی جنرل سکریٹری نوین چاری، نائب صدور راجیو ساگر اور پروفیسر کانکیا بھی موجود تھے۔ آفرین بیگم نے اپنی ڈاکٹریٹ کی تکمیل 3 سال کے قلیل عرصہ میں کرتے ہوئے یونیورسٹی میں ریکارڈ قائم کیا اور تلگو ادب میں بہترین قلم کار کے ذریعہ کئی مرتبہ یونیورسٹی کا بیسٹ اسٹوڈنٹ ایوارڈ حاصل کیا۔ آفرین بیگم نے اپنے اس سنگ میل پر میڈیا نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ تلگو ادب میں ڈاکٹریٹ حاصل کرنے پر کافی مسرور ہے اور وہ اس کیلئے اپنے والدین، اساتذہ اور کلاس میٹس کی کافی مشکور ہے جنہوں نے ان کی ہر قدم پر حوصلہ افزائی کی۔ انہوں نے خصوصاً اپنے پروفیسر کاناکیا اور اپنے والد کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ میں نے اپنی بنیادی تعلیم انگریزی میڈیم سے حاصل کی اور انہیں تلگو زبان سے خصوصی انسیت تھی اس لئے انہوں نے تلگو ادب سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا ارادہ کیا۔ اسکولنگ کے بعد انہوں نے سائنس سے انٹرمیڈیٹ کی تعلیم حاصل کی اور بعد ازاں تلگو سے بی اے کی تکمیل کی۔ بی اے کی تکمیل کے دوران وہ کالج میں ہمیشہ اول مقام پر رہیں۔ انہوں نے کہا کہ میری مادری زبان اردو ہے لیکن میں تلگو سے خصوصی لگا ئو رکھتی ہوں اور میں عموماً میرے تمام دوستوں سے تلگو زبان میں ہی گفتگو کرتی ہوں۔ آفرین بیگم نے کہا کہ پی جی تعلیم کے دوران انہوں نے تلگو ادب پر بہت سی کتابیں پڑھیں تاہم انہیں تلگو ادب میں تلنگانہ کے مصنفین کے مضامین کم ہی پڑھنے کو ملے۔ انہیں سارے پی جی نصاب میں صرف دو یا تین تلنگانہ کے مصنفین ملے۔ جس پر انہوں نے اس پر تحقیق کرنے کی ٹھان لی اور اس مضمون میں ڈاکٹریٹ کرنے کا ارادہ کرلیا۔ ان کے دل میں سوال پیدا ہوئے کہ کیا تلنگانہ بھر میں تلگو ادب کے دو یا تین مصنفین ہی ہیں؟ جس کے بعد انہوں نے اس پر تحقیق شروع کی اور تلگو جریدوں اور اخبارات میں اس پر مضامین لکھنے شروع کئے اور ڈاکٹریٹ کی ڈگری 3 سال کے قلیل عرصہ میں حاصل کرلی۔ انہوں نے کہا کہ میرا مقصد تلگو ادب میں ہی مستقبل بنانا ہے اور پروفیسر بنتے ہوئے تلگو ادب میں تعلیم حاصل کرنے کے خواہشمند خصوصاً لڑکیوں کو تعلیم دینا اور انکی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔