تم کیوں اداس ہوگئے کیا یاد آگیا

   

راجیہ سبھا میں مودی اشکبار … حقیقت یا ڈرامہ
گجرات فسادات پر آنکھ نم نہیں ہوئیں… آزاد پر آنسوؤں کا جال

رشیدالدین
آنسو… یہ محض آنکھ سے نکلنے والے ایک قطرہ کا نام ہے لیکن یہ قطرہ اپنے میں دنیا سموئے ہوتا ہے ۔ ماہرین نفسیات نے آنسو کے کئی اقسام بیان کئے ہیں اور موقع و محل کے اعتبار سے آنسو کا تعارف اور توضیح مختلف ہوتی ہے۔ عام طور پر غم اور خوشی کے آنسو سے عوام واقف ہیں لیکن بعض آنسو سنجیدہ اور غیر سنجیدہ بھی ہوتے ہیں جس کا غم یا خوشی سے نہیں بلکہ موقع کی نزاکت سے استعمال ہوتا ہے۔ ان آنسوؤں کو ابن الوقت بھی کہا جاتا ہے جن کے ذریعہ دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونک کر ہمدردی حاصل کی جاتی ہے ۔ بعض آنسو بے اختیار ہوتے ہیں اور انسان کے بس میں نہیں ہوتا کہ ان پر قابو پاسکے ۔ حالات اور واقعات کے اعتبار سے آنسو قیمتی اور بے وقعت بھی ہوتے ہیں۔ اگر سامنے والا آنسوؤں سے متاثر ہو تو وہ قیمتی اور کسی پر اثرانداز نہ ہوں تو فضول اور ناکارہ۔ آنسو کی اقسام اور خصوصیات بھلے ہی کچھ ہوں لیکن لا قیمت اور بے مثال آنسو وہ ہیں جو خوف خدا میں آنکھوں سے نکلیں۔ اللہ تعالیٰ کو بھی وہی آنسو عزیز ہیں جو بندہ گناہوں سے توبہ کرتے ہوئے خوف خدا میں بہاتا ہے۔ عام طور پر آنکھوں کا بھر آنا درد مند دل اور ہمدرد انسان کی علامت کے طور پر دیکھا جاتا ہے ۔ جو بات یا واقعہ انسان کے دل کو چھولیں تو آنکھیں بھر آتی ہیں جوکہ فطری ہے لیکن بعض سنگدل ایسے بھی ہوتے ہیں جو خوشی توکجا کسی کے غم پر بھی آنکھ نم نہیں کرتے۔ اداکاری اور ڈرامہ بازی کے آنسو بھی اپنا وجود رکھتے ہیں ۔ ماہرین نے بعض آنسوؤں کو دھوکہ سے تعبیر کیا جن پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔ شائد ایسے آنسوؤں کے لئے مگرمچھ یا گھڑیالی آنسو کا نام دیا گیا ہے ۔ گزشتہ دنوں راجیہ سبھا میں جذباتی مناظر دیکھے گئے ۔ اس وقت آنسوؤں کے بارے میں تفصیلات ذہن میں آنے لگیں۔ وزیراعظم نریندر مودی کا بار بار جذباتی ہوجانا اور کانگریس قائد غلام نبی آزاد کی آنکھیں بھر آنا جس کے نتیجہ میں ایوان کا سارا ماحول غمگین ہوچکا تھا ۔ صرف صدرنشین وینکیا نائیڈو اور دوسرے ارکان کا اشکبار ہونا باقی رہ گیا تھا ۔ ایوان کا ا جلاس تعزیتی جلسہ کا منظر پیش کر رہا تھا۔ غلام نبی آزاد کا جذباتی ہونا سمجھ میں آتا ہے ۔ 41 سالہ طویل سیاسی کیریئر کے حامل جہاندیدہ شخصیت اپنے تجربات اور مشاہدات کا ذکر کر رہے تھے اور یہ راجیہ سبھا میں ان کا آخری خطاب تھا کیونکہ ان کی میعاد بھی ختم ہوگئی ۔ سبکدوش ہونے والے ارکان کو وداع کیا جارہا تھا ۔ ایسے میں غلام نبی آزاد کا دل بھر آنا فطری ہے لیکن نریندر مودی کے بار بار اشکبار ہوجانا کسی کو ہضم نہیں ہورہا تھا ۔ لہذا ہماری آنکھیں بھی یقین کرنے کیلئے تیار نہیں تھیں۔ گزشتہ 6 برسوں میں ملک نے کئی بار وزیراعظم کو جذباتی ہوتے دیکھا ، جب ان کی آنکھیں بھر آئیں۔ قول اور فعل میں تضاد اس قدر ہیں کہ وزیراعظم کے آنسوؤں پر اعتبار کرنا مشکلا ہے ۔ غلام نبی آزاد کشمیری عوام کے مصائب و مشکلات اور دہشت گرد کارروائیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے اشکبار ہوئے۔ غلام نبی آزاد کی سیاسی زندگی میں ہمدردی اور ایثار کی کئی مثالیں ملتی ہیں لیکن نریندر مودی کا سیاسی سفر کیسا رہا اس بارے میں دنیا جانتی ہے اور دہرانے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ ہم نریندر مودی کے آنسو کو گھڑیالی نہیں کہہ رہے ہیں ، آخر وہ بھی تو انسان ہی ہیں لیکن آنسوؤں کے پیچھے ہمدردی سے زیادہ سیاسی محرکات دکھائے دیئے ۔ ’’آپ اس ایوان سے ریٹائرڈ ہورہے ہیں لیکن میں آپ کو ریٹائرڈ ہونے نہیں دوں گا۔ میرے دروازے آپ کیلئے ہمیشہ کھلے ہیں‘‘۔ وزیراعظم کے ان الفاظ سے سیاست کی بو آرہی ہے۔ کانگریس میں تنظیمی تبدیلیوں سے متعلق آزاد اور دیگر 23 قائدین کی تجاویز سے پیدا شدہ ناراضگی کو مزید ہوا دینے اور غلام نبی آزاد کو پھانسنے کیلئے آنسوؤں کا جال پھینکا ۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ نہرو ، گاندھی خاندان کو ایک وفادار اور قابل شخصیت سے محروم کرنے کیلئے راجیہ سبھا کی رکنیت اور نائب صدر جمہوریہ کے عہدہ کا پیشکش بھی کیا جاسکتا ہے ۔ اس طرح کا کوئی بھی لالچ غلام نبی آزاد پر اثر انداز نہیں ہوسکتا کیونکہ اپوزیشن ہو کہ اقتدار انہوں نے اصولوں پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا ۔ انسان میں رحم دلی ہو اور دوسروں کے غم کو محسوس کرنے والا دل ہو تو کسی کی تکلیف پر بے ساختہ آنسو نکل پڑتے ہیں۔ یہ خوبی غلام نبی آزاد میں بدرجہ اتم موجود ہے۔ راجیہ سبھا سے وداعی خطاب میں انہوں نے بتایا کہ زندگی میں پانچ مواقع پر وہ بے ساختہ چیخ اور آواز کے ساتھ رو پڑے ۔ اندرا گاندھی ، سنجے گاندھی اور راجیو گاندھی کی اچانک موت کے علاوہ اڈیشہ میں مہا سیکلون میں ہزاروں نعشوں کو دیکھ کر اور کشمیر میں گجرات کے سیاحوں پر دہشت گرد حملہ کے مہلوکین کے بچوں سے ملاقات کے وقت وہ اپنی آواز کو روکنے نہیں پائے۔
وزیراعظم نریندر مودی کی آنکھیں اس وقت نم ہوگئیں جب 2007 ء میں کشمیر میں گجراتی سیاحوں پر دہشت گرد حملے کا راجیہ سبھا میں ذکر کیا ۔ یقیناً اس حملہ کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے ۔ گجراتی سیاح ہوں یا پھر ملک کے کسی حصے کے باشندے ان پر حملے ناقابل قبول ہیں۔ کیا گجرات کے عوام تنہا ہندوستانی شہری ہیں اور کشمیر و دیگر علاقوں کے عوام کا ہندوستانی شہریوں میں شمار نہیں ہوتا ؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ گجراتیوں پر دہشت گرد حملہ کا بدلہ دفعہ 370 کی برخواستگی اور ریاست کے موقف کے خاتمہ کے ذریعہ لیا گیا۔ کشمیر کے خصوصی موقف کے خاتمہ کو ایک سال سے زائد کا عرصہ گزر گیا لیکن آج بھی عوام پر پابندیاں برقرار ہیں اور عام زندگی معمول پر نہیں آئی ہے۔ وزیراعظم کو کشمیریوں کا کرب سنائی نہیں دے رہا ہے۔ اپوزیشن لیڈر کی میعاد کی تکمیل پر مودی کی آنکھوں کا بھر آنا کہیں خوشی میں تو نہیں تھا کہ اپوزیشن ایک قابل شخصیت سے محروم ہورہی ہے اور حکومت سے سوال پوچھنے والے کم ہوجائیں گے۔ کاش مودی کی آنکھیں اس وقت بھی بھرا ہوتیں جب گجرات میں تین ہزار سے زائد بے قصوروں کا خون بہایا گیا ۔ چیف منسٹر کے عہدہ پر فائز ہونے کے باوجود جان ومال کے تحفظ میں ناکام رہے۔ مودی اس وقت اشکبار نہیں ہوئے جب سابق ایم پی احسان جعفری نے مدد کیلئے فون کیا تھا لیکن مدد کے بجائے انہیں برا بھلا کہا گیا ۔ مودی کی آنکھ میں اس وقت آنسو نہیں آئے جب نہتے مرد، خواتین اور بچوں کو آگ میں جھونک دیا گیا۔ گجرات کے متاثرین کو آج تک انصاف نہیں ملا اور قاتل سرعام گھوم رہے ہیں۔ مودی کی آنکھ نم تو نہیں ہوئی لیکن اس وقت کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے راج دھرم کا سبق یاد دلایا جس پر مودی نے جواب دیا تھا ’’ہم وہی تو کر رہے ہیں صاحب‘‘ ملک کی تاریخ 12 جولائی 2013 کا دن کبھی بھلا نہیں پائے گی جب ایک ٹی وی انٹرویو میں مودی نے 2002 کے بھیانک فسادات پر ندامت اور شرمندگی کے بجائے مرنے والوں کو کتے کے بچے سے تعبیر کیا تھا۔ ان کی آنکھوں کا نم ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ خمار بارہ بنکوی نے کیا خوب کہا ہے ؎
مجھ کو شکست دل کا مزہ یاد آگیا
تم کیوں اداس ہوگئے کیا یاد آگیا