تین سال میں چارج شیٹ

,

   

نئی دہلی۔ دہلی پولیس نے جے این یو میں مبینہ طور پر مخالف ملک نعرے لگانے کے معاملے میں قریب تین سال بعد اپنی چارج شیٹ داخل کی ہے۔ اس میں جواہرلال نہرو یوینورسٹی اسٹوڈنٹ یونین کے سابق صدر کنہیا کمار کے بشمول دس لوگوں کو ملزم بنایاگیا ہے۔

دہلی کے پٹیالہ ہاوز کورٹ میں داخل کی گئی بارہ سو صفحات پر مشتمل اس چارج شیٹ پر سنوائی19جنوری تک ٹال دی گئی ہے۔

غور طلب ہے کہ پارلیمنٹ پر حملہ کے خاطی افضل گرو کی پھانسی کی برسی کے موقع پر9فبروی 2016کے روزجے این یو میں ایک تقریب منعقد کی گئی تھی۔

پولیس کا کہنا ہے کہ اس موقع پر کچھ طلبہ نے ملک کے خلاف نعرے لگائے۔

اس کے دودن بعد 11فبروری کو ساوتھ دہلی کے رکن پارلیمنٹ مہیش گری نے کنہیا کمار کے بشمول کئی لوگوں پر ملک سے غداری کا مقدمہ درج کروایا۔

وسنت کنج نارتھ تھانے میں معاملہ درج ہونے کے بعد پولیس نے کنہیا کمار ‘ عمر خالد‘ اور انر بان بھٹاچاریہ سے پوچھ تاچھ کی اور 12 فبروری کے کنہیا کمار کو گرفتار کرلیا۔

عمر خالد او رانر بان بھٹاچاریہ کو 24فبروری کے روز گرفتار کیاگیا اور 19مارچ کے روز ان تینوں کو عدالت سے ضمانت مل گئی۔آزاد سونچ کے ساتھ دیکھیں تو ازل سے یہ معاملہ کافی الجھا ہوا دیکھائی دیتا ہے ۔

پولیس نے اس معاملے میں جو ویڈیو پیش کئے ہیں۔ اس میں ویڈیواڈیو میں تال میل کی کمی کا مسئلہ ہے۔

پہلے پولیس نے کنہیا پر ہی نعرے لگانے کا الزام عائد کیاتھا۔ پھر پولیس نے کہاکہ انہو ں نعرے بھلے ہی نہ لگائیں ہو مگر وہ پروگرام میں موجود تھے ۔

بعد میں پولیس نے اپنا یہ موقف لیاکہ وہ پروگرام ہونے ہی کیوں دیا؟۔ ابھی پولیس کا کہنا ہے کہ اس کے پاس طلبہ کے خلاف پختہ ثبوت موجود ہیں۔

اگر پولیس کے پاس پختہ ثبوت پہلے سے ہی موجود تھے تو چارج شیٹ پیش کرنے میں اسے تین سال کاوقت کیوں لگا؟پولیس کے الزامات میں اگر سچائی ہے تو پولیس نے پہلے سے ہی مستعدی کا مظاہرہ کیوں نہیں کیا؟۔

بہرحال جس طرح سے اور جس وقت یہ چارج شیٹ داخل کی گئی ہے ‘ اس سے مذکورہ جوابی الزام کو تقویت ملتی ہے کہ حکومت اس معاملے سے سیاسی فائدہ اٹھانا چاہتی ہے۔

ضمانت کی رہائی سے قبل اور بعد سے کنہیا کمار مسلسل مرکزی حکومت پر تنقید کرتے آرہے ہیں اور بی جے پی کے خلاف الیکشن لڑنے کی تیاری میں بھی ہیں۔

ایسی میں اس دلیل سے انکار نہیں کیاجاسکتا کہ حکومت انہیں گرفتار کرکے راشٹرواد کا کارڈ کھیلنا چاہتی ہے۔

برسراقتدار جماعت کے لیڈران جے این یو کے مذکورہ اسٹوڈنٹ لیڈران کے خلاف مہم چلاتے رہے ہیں ‘ اس سے بھی یہ شک گہرہ ہوتا جارہا ہے۔

واضح رہے کہ کچھ وقت پہلے گجرات کی حکومت مخالف نوجوان لیڈر ہاردیک پٹیل اور کئی سماجی جہدکار اور دانشواروں پر بھی اقتدار سے غداری کا مقدمہ درج کیاگیا ہے جس کو ملک سے غداری کے طور پر پیش کیاجارہا ہے۔

راحت کی بات تو یہ ہے کہ عدالت نے ایسے تمام واقعات میں مداخلت کیا ہے اور امید ہے کہ جے این یو معاملے میں بھی وہ جلد ہی دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کردے گا۔