جامعہ ملیہ کی دلیر طالبات عائشہ اور لدیدا آج کے دور کی جھانسی کی رانیاں

   

ایشلین متھیو
اس وقت سارا ہندوستان فاشزم اور ہندوتوا کے نظریات کے خلاف ایک ہوچکا ہے اور شہریت ترمیمی قانون کے خلاف سراپا احتجاج ہے ۔ حکومت کے خلاف احتجاج میں ہندو،مسلم ،سکھ، عیسائی اور ہندوستان کے دیگر طبقات بھی ملا لحاظ مذہب وہ طبقہ شانہ بہ شانہ نعرے لگاتے ہوئے ہندوستان کے دستور سے محبت کا ثبوت دینے کے ساتھ ہندوستان کی سالمیت کیلئے جان اور مال کی پرواہ بھی نہیں کررہے ہیں لیکن رواں ہفتہ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں جو واقعہ پیش آیا اس نے ایک جانب حکومت کی سازشوں اور پولیس کے ظلم سے پردہ فاش کردیا ہے تو دوسری جانب پولیس کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے والی چند طالبات نے عالمی منظر نامہ پر اپنی ایک منفرد شناخت بنالی ہے۔ اتوار کی شام دہلی کے جامعہ یونیورسٹی میں لاٹھی چارج کر رہی پولیس کے سامنے دلیری کے ساتھ کھڑی ایک طالبہ کی تصویر اور ویڈیو سوشل میڈیا پر خوب وائرل ہوا۔ یہ طالبہ اپنے ایک ساتھی طالب علم کو بچانے کے لیے پولیس والوں کے اس گروپ کے سامنے کھڑی ہو گئی جو بے رحمی سے لاٹھیاں برسا رہے تھے۔ اس طالبہ کے ساتھ کچھ طالبات اور تھیں جو طالب علم کو چاروں طرف سے گھیر لیا تھا تاکہ پولیس اسے پیٹ نہ سکے اور ایک لڑکی پولس والوں کے سامنے آ کر کھڑی ہو گئی تھی۔ان طالبات کی دلیری کو ساری دنیا نے سلام کیا ہے اور کئی قلم کاروں نے اپنے انداز میں اس کی عکاسی کی ہے جبکہ کارٹونسٹ نے تو ان طالبات کی ایسی ترجمانی کی ہے کہ سب کی زبان سے بے ساختہ واہ واہ ہی نکل گیا۔ہندوستان بھر کے عوام یہ جاننے کیلئے بے صبر تھے کہ آخر اس دلیر اور آج کے دور کی جھانسی کی رانی کون ہے؟ دور جدید کی اس دلیر طالبہ کا نام ہے عائشہ رینہ ہے۔
حجاب پہنے عائشہ رینہ کا نام اس وقت ہر کسی کی زبان پر ہے۔ وائرل تصویر میں عائشہ کے ٹھیک پیچھے لدیدا شکلون نظرآ رہی ہیں اور جس طالب علم کو پولیس بے رحمی سے لاٹھیوں سے پیٹ رہی تھی اس کا نام شاہین عبداللہ ہے۔ یہ سبھی کیرالہ کے رہنے والے ہیں۔ جامعہ کے شعبہ تاریخ میں پوسٹ گریجویشن کی طالبہ 22 سالہ عائشہ نے کہا ہے کہ اتوار کو ہوئے مظاہرے میں ہم سامنے نہیں تھے۔ سرائے جلینا میں مظاہرین کے ذریعہ جو مارچ نکالا گیا اس میں ہم سب سے آخر میں تھے۔ اچانک ہم نے دیکھا کہ سبھی طلبہ دوڑ رہے ہیں۔ ہمیں پتہ نہیں تھا کہ کیا ہوا ہے۔ تبھی پولیس نے آنسو گیس کے گولے داغنے شروع کر دیئے۔ ہم بھی اس کے بعد پیچھے ہٹ گئے۔ ہم نے ایک درخت کے پیچھے چھپنے کی کوشش کی، لیکن پولس نے ہمیں دیکھ لیا۔ اس دوران استھما کی مریض لدیدا کو آنسو گیس کی وجہ سے سانس لینے میں دقت ہونے لگی۔ اس کی خراب حالت کو دیکھ کر ہم ایک گھر میں دوڑ پڑے تاکہ پولس ہم پر حملہ نہ کرے۔ کیرالہ کے ملپورم کی رہنے والی طالبہ نے کہا ہے کہ ہمیں امید تھی کہ پولیس ہم پر حملہ نہیں کرے گی کیونکہ ان کے ساتھ کوئی خاتون اہلکار نہیں تھی۔ لدیدا نے اپنی کہانی سناتے ہوئے کہا کہ استھما کی وجہ سے مجھے سانس لینے میں پریشانی ہو رہی تھی۔ ہمارے ساتھ دو اور طالبات تھیں جنھیں پولیس نے پیٹا تھا، اور انھیں فرسٹ ایڈ کی ضرورت تھی۔ ہم یہ سوچ کر گھر میں گئے کہ ہم وہاں محفوظ رہیں گے۔ لیکن پولیس نے ہمارا پیچھا کیا۔ یہ دیکھ کر ہم نے نعرے لگانے شروع کر دیئے۔ ہمیں لگا تھا کہ مرد پولیس عہدیدار طالبات پر ہاتھ نہیں اٹھائیں گے۔ لیکن ہم غلط تھے، انھوں نے بے رحمی سے لاٹھیاں چلانی شروع کر دیں۔ لدیدا کنّور کی رہنے والی ہیں اور جامعہ میں عربک اسٹڈیز میں انڈر گریجویٹ کورس کی طالبہ ہیں۔مشکل وقت میں اپنی بہادری کا مظاہرہ کرنے والی عائشہ نے واقعات کی جو تفصیلات سنائی ہے اس میں پولیس کے کردار پر سوالیہ نشان گہرا کردیا ہے ۔ عائشہ کے بموجب شاہین ہمیں ڈھونڈتا ہوا اس جگہ پر آیا تھا اور جب وہ ہماری مدد کر رہا تھا تبھی پولیس والوں نے ہم پر حملہ کر دیا۔ وہ مزید بتاتی ہیں کہ ہم اپنے آس پاس موجود لوگوں کے تحفظ کے لیے آواز اٹھاتے رہیں گے۔ ہم ڈرنے والے نہیں ہیں۔ ہم صرف اپنے حقوق کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اگر ہم اب کھڑے نہیں ہوئے تو کب کھڑے ہوں گے۔
یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ شاہین جامعہ کے ماس میڈ یاریسرچ سنٹر کے کنورجینٹ جرنلزم سے پوسٹ گریجویشن کر رہا ہے اور ایک آزاد صحافی ہے۔ اس نوجوان صحافی نے کہا ہے کہ اسے ان طالبات کی فکر تھی کیونکہ یہ کہیں نظر نہیں آ رہی تھیں۔ جب وہ انھیں ڈھونڈتا ہوا آیا تو پولیس نے حملہ کر دیا۔ وہ بتاتا ہے کہ میں نے انھیں بتانے کی کوشش کی کہ میں ایک صحافی ہوں، لیکن انھوں نے کسی کی نہیں سنی۔ وہ صرف ہمیں پیٹنا چاہتے تھے۔ اس واقعہ کے بعد یہ سبھی ہولی فیملی اسپتال پہنچے جہاں لدیدا کو آکسیجن لگانی پڑی تھی اور باقی افراد کو فرسٹ ایڈ دینا پڑا تھا۔ لدیدا اور عائشہ دونوں کا ماننا ہے کہ چونکہ ان کے ساتھ جو کچھ ہو رہا تھا وہ ریکارڈ ہو رہا تھا، اس لیے وہ بچ گئیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اچھا ہوا کہ وہاں کچھ لوگ تھے اور ریکارڈنگ کر رہے تھے۔ پولیس والوں کے ساتھ ایک آدمی اور تھا جو لاٹھی چلا رہا تھا۔ بغیر وردی کا وہ آدمی کون تھا یہ پتہ نہیں۔ اس لال ٹی شرٹ اور جنس والے کے متعلق ہنوز کئی سوالات موجود ہیں جبکہ سوشل میڈیا پر اس کی تصویر وائرل ہوئی ہے جس میں اسے آر آر ایس کا رضاکار ظاہر کیا جارہا ہے۔ ان سبھی طالبات کے گھر والے اس لڑائی میں ان کے ساتھ ہیں۔ عائشہ کا شوہر رحمن ایک آزاد صحافی ہے۔ دو تین دن پہلے ایک اور تحریک میں پولیس نے اس کی بھی پٹائی کی تھی۔ عائشہ نے بتایا کہ میرے شوہر اتوار کو میرے ساتھ نہیں تھے، لیکن وہ بھی ان احتجاجی مظاہروں میں شریک ہوتے رہے ہیں۔ ہمارے گھر والے بھی ہمارے ساتھ ہیں۔ وہ اس بات کو سمجھتے ہیں کہ شہریت قانون آنے سے کس طرح کی تقسیم ہوگی۔ یہ ہمارے حقوق کو چھیننے والا قانون ہے۔ لدیدا بھی بتاتی ہیں کہ اس کے والدین انصاف کے لیے لڑائی میں ہمیشہ اس کے ساتھ کھڑے رہے ہیں۔غور طلب ہے کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طالب علم اس شہریت قانون کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں جس میں پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش کے غیر مسلموں کو شہریت دینے کی بات کہی گئی ہے۔ اس قانون کے خلاف آواز اٹھانے والے لوگوں نے کہا ہے کہ یہ قانون مذہب کی بنیاد پر تیار کیا گیا ہے جو کہ ہندوستانی آئین کے خلاف ہے۔
کہتے ہیں کہ قربانی رائیگاں نہیں جاتی اور اب ہندوستان دیکھ رہا ہے کہ جامعہ ملیہ سے جو چنکاری اٹھی تھی وہ اب ہندوستان کا ایک ایسا شعلہ بن چکی ہے جو انسانیت ،جمہوریت اور اتحاد کے خلاف سازشیں کرنے والی حکومت کے محل کو جلا کر خاکستر کردے گی۔