جامعہ میں سی اے اے کے خلاف احتجاج کے دوران پولیس بسوں کو نذر آتش کرنے کے معاملے میں ملوث ہے؟

,

   

نئی دہلی۔سوشیل میڈیا پر دو ویڈیوز وائیرل ہوئے ہیں جس میں اسبات کی طرف اشارہ مل رہا ہے کہ سی اے اے کے خلاف احتجاج کے دوران بسوں میں لگی آگ کے پس پردہ پولیس ہے جس کی وجہہ سے قومی راجدھانی میں بڑے پیمانے پر کشیدگی ہوئی تھی۔

ایک ویڈیو میں مبینہ طور سے ایک پولیس جوان بس (جس کا نمبر ڈی ایل ائی پی سی۔5299) ہے کی سیٹوں پرتیل چھڑک رہا ہے‘ وہیں ایک دوسرے ویڈیومیں وہی بس(جس کا نمبر ڈی ایل ائی پی سی۔5299) ہے کو نذر اتش کرنے کے بعد دیکھایا گیاہے۔

ویڈیوز یہ ہیں

خبروں کے مطابق جامعہ یونیورسٹی کے قریب میں کالیندا کنج روڈ پر احتجاج پیش آیاتھا‘ تین بسیں موقع پرنذر آتش کی گئیں۔

طلبہ نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے راست طور پر دہلی پولیس کو مورد الزام ٹہرایا او رکہاکہ ’دہلی پولیس کے اشتراک اور جانکاری کے ساتھ تشدد منظم انداز میں کیاگیاتھا‘۔

نائب وزیراعلی دہلی منیش سیسوڈیا کے بشمول کئی لوگوں نے الزام لگایاہے کہ ہوسکتا ہے کہ پولیس کے کچھ لوگ تشدد اور مارپیٹ میں ملوث ہیں۔مسٹر سیسوڈیانے ہندی میں ٹوئٹ کرتے ہوئے لکھا کہ”تصویریں دیکھیں۔

دیکھیں کون بسوں او رکاروں کو آگ کی نظر کررہا ہے۔ یہ تصویربی جے پی کی دوغلی سیاست کا ثبوت ہے۔ کیابی جے پی قائدین پر ردعمل پیش کریں گے“۔

جامعہ کے طلبہ اب بھی یہی کہہ رہے کہ تشدد میں ان کوئی بھی طالب علم ملوث نہیں تھا‘ جس کی وجہہ سے قومی راجدھانی دہل گئی تھی۔

احتجاج کرنے والے طلبہ کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہاگیا ہے کہ ”یونیورسٹی کیمپس کے اندر طلبہ کے ساتھ بدسلوکی اورمارپیٹ کے ذریعہ دہلی پولیس کو شروعات کرنے کا جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کی طلبہ کمیونٹی قصور وارٹہراتی ہے۔

جہاں طلبہ پر حملے کئے گئے‘ بری طرح پیٹا گیا‘ جنسی بدسلوکی کی گئی اور انہیں طبی امداد کے بغیر چھوڑ دیاگیا جو انسانی حقوق کی سخت خلاف ورزی ہے“۔

وہیں دہلی پولیس نے ایک تردید جاری کرتے ہوئے اتوار کے روز پڑوسی ریاست اترپردیش میں پیش ائے افسوسناک واقعات میں ملوث ہونے سے واضح طور پر انکار کیاہے‘

مذکورہ مقام علی گڑھ میں جہا ں پر علی گڑھ یونیورسٹی میں احتجاج کے بعد دو پہیوں کی گاڑیوں کے ساتھ توڑ پھوڑ کا واقعہ کیمرہ میں قید ہوا ہے۔

واقعہ منظرعام پر آنے کے بعد دونو ں ریاستوں میں قانون نفاذ کرنے والے عہدیداروں کے خلاف لگائے جارہے الزامات کی آزادنہ تحقیقات کرانے کی مانگ زور پکڑنے لگی ہے