جمہوریت کا قتل

   

ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہوجاتے ہیں بد نام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
گذشتہ دنوں چندی گڑھ کے مئیر کا انتخاب ہوا ۔ بی جے پی کو وہاں کاکامیاب قرار دیا گیا ۔ میونسپل کارپوریشن میں کانگریس اور عام آدمی پار ٹی کے ارکان کی تعداد کے مطابق تو یہ عہدہ عام آدمی پارٹی کے امیدوار کو حاصل ہونا چاہئے تھا تاہم جو پریسائیڈنگ عہدیدار تھے وہ بی جے پی سے تعلق رکھتے تھے اور انہوں نے عام آدمی پارٹی کے آٹھ ووٹوںکو بلا کسی وجہ کے کالعدم قرار دیدیا جس کے بعد بی جے پی کے امیدوار کو چار ووٹوںسے کامیابی حاصل ہوگئی ۔ یہ در اصل جمہوریت کو ختم کرنے کی کوشش تھی ۔ عددی طاقت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اختیارات اور عہدہ کا بیجا استعمال کرتے ہوئے اصل حقدار کو کامیابی سے روک دیا گیا اور اکثریت نہ رکھنے کے باوجود بی جے پی کے امیدوار کو مئیر قرار دیدیا گیا ۔ یہ سارا عمل جمہوریت کے قتل کے مترادف ہے اور اس کے خلاف عام آدمی پارٹی نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی اور عدالت نے بھی اس مسئلہ پر انتہائی برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عدالت جمہوریت کے قتل کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔ اس طرح یہ واضح ہوگیا ہے کہ بی جے پی نے در اصل چندی گڑھ مئیر کا انتخاب بدعنوانیوں سے جیت کر جمہوریت کا قتل کردیا ہے ۔ در اصل سارے ملک میں بی جے پی کی جانب سے اسی طرح سے طاقت اور اختیارات کے بیج استعمال کا سلسلہ سا شروع کردیا گیا ہے ۔ قوانین اور اصولوںکی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔ جمہوری عمل کا مذاق بنا کر رکھ دیا گیا ہے ۔ کسی بھی ریاست میں بی جے پی کو انتخابات میں شکست ہوجاتی ہے اور اقتدار سے محرومی ہوجاتی ہے تو وہ طاقت کے بل پر یا پھر مخالفین کے ارکان اسمبلی ‘ ارکان پارلیمنٹ یا ارکان بلدیہ کو خرید کر یا انہیں دھمکا کر ہراساں کرتے ہوئے اکثریت اورا قتدار حاصل کرلیتی ہے ۔ ایسی کئی مثالیں ملک بھر میں موجود ہیں۔ بی جے پی ہر سطح پر بہرصورت اقتدار حاصل کرنا چاہتی ہے اور وہ سیاسی مخالفین کو برداشت کرنے کو تیار نہیں ہے ۔ پارلیمنٹ سے میونسپلٹی تک یہی روایت بنادی گئی ہے ۔ پارلیمنٹ میں بھی اپوزیشن کو اظہار خیال کا تک موقع نہیں دیا جا رہا ہے اور ان کے مائیک بند کئے جا رہے ہیں۔
مدھیہ پردیش ‘ کرناٹک اور مہاراشٹرا جیسی ریاستوں میں اپوزیشن کے ارکان اسمبلی کو خرید کر ان کی تائید حاصل کرتے ہوئے بی جے پی نے ریاستی حکومتیں قائم کی تھیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ نہ پارلیمنٹ میں ‘ نہ اسمبلیوں میں اور نہ ہی بلدیات میں مخالفین یا اپوزیشن کو دیکھنا چاہتی ہے ۔ بی جے پی جس طرح سے ایک قوم ایک الیکشن کا نعرہ دے رہی ہے ایسا لگتا ہے کہ وہ در اصل ایک قوم ‘ ایک الیکشن اور ایک ہی جماعت کے نظام کو رائج کرنا چاہتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ دوسری جماعتوں کے سیاسی وجود کو ختم کرنے پر تلی ہوئی ہے ۔ا س کیلئے قوانین کی دھجیاں بھی اڑانے سے گریز نہیں کیا جا رہا ہے ۔ جس جمہوری عمل کے ذریعہ بی جے پی نے اقتدار حاصل کیا تھا اسی جمہوری عمل کو کھوکھلا کیا جا رہا ہے ۔اس کا مذاق بنایا جا رہا ہے اور دہائی بھی جمہوریت ہی کی دی جا رہی ہے ۔جس طرح سے چندی گڑھ کے مئیر کے انتخاب کو یرغمال بنایا گیا ہے اس سے واضح ہوجاتی ہے کہ بی جے پی کی سیاسی حرص و ہوس کی کوئی انتہاء نہیںرہ گئی ہے ۔ ملک میں بی جے پی کی حکومت ہے ۔ کئی ریاستوں میں بی جے پی کا اقتدار ہے ۔ ایسے میں اگر چندی گڑھ جیسے شہر پر مخالف جماعتوںکا مئیر منتخب ہوتا ہے تو اس میں بی جے پی کو فراخ دلی کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت تھی لیکن اس نے نظریاتی اور سیاسی تنگ نظری سے کام لیتے ہوئے یہ عہدہ بھی قانون کی دھجیاں اڑاتے ہوئے حاصل کیا تھا ۔ جمہوری اور دستوری اداروں میں بھی اس مسئلہ پر خاموشی چھائی ہوئی ہے ۔
اب جبکہ سپریم کورٹ نے بھی اس مسئلہ پر ایک ریمارک کیا ہے تو اس کی حقیقت سب کو سمجھ میں آجانی چاہئے ۔ حالانکہ عدالت عظمی نے ابھی کوئی فیصلہ نہیں سنایا ہے اور نہ ہی مئیر کے انتخاب کو کالعدم کیا ہے لیکن عدالت کا یہ ریمارک بھی کم نہیں ہے کہ جمہوریت کے قتل کی اجازت نہیںدی جاسکتی ۔ بی جے پی کو اس سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے ۔ اس کو رواداری کا جذبہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ملک میں وفاقیت اور جمہوریت کے اصولوںکو استحکام حاصل ہوسکے ۔ اقتدار آتا اور جاتا رہے گا تاہم اس کیلئے جمہوری نظام کو داغدار کرنے اور اسے کھوکھلا کرنے سے ہر جماعت کو اور ہر فریق کو گریز کرنے کی ضرورت ہے ۔