جنوب اور شمال کے دو عظیم انجینئر

   

رامچندر گوہا
گزشتہ ماہ میرے واقف کار دو ہندوستانی بزگ شہری اس دارفانی سے کوچ کرگئے ایک کا انتقال اقتصادی دارالحکومت ممبئی میں ہوا اور دوسرے بزرگ نے بنگلورو میں آخری سانس لی ۔ دونوں کی عمریں زائد از 90 برس تھی ۔ پہلے صاحب نوابی ریاست اودے پور میں پلے بڑے اور دوسرے صاحب کی پرورش مدراس پریسیڈنسی کے شہروں میں ہوئی وہیں وہ پلے اور بڑے ہوئے ۔ دونوں شخصیتوں کی ایک اور مشترکہ بات یہ تھی کہ دونوں راج دور کے آخری برسوں میں سن بلوغ کو پہنچے ۔ آپ کو دونوں کے بارے میں یہ بتانا ضروری ہے کہ ان میں ایک یا دو باتیں ہی مشترکہ نہیں تھیں بلکہ کئی باتیں ان میں مشترکہ طورپر پائی جاتی تھیں۔ مثال کے طورپر دونوں نے اپنی نوجوانی سے ہی سائنس وٹکنالوجی میں غیرمعمولی دلچسپی دکھائی اور پھر دونوں نے غیرمعمولی تعلیمی مظاہرہ کیا اور انحجینئرس کی حیثیت سے اپنی صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کیا ۔ پہلے ہندوستان میں تعلیم حاصل کی اور پھر برطانیہ سے اعلیٰ تعلیم مکمل کی ۔ دونوں مغربی ملکوں میں مقیم رہ کر پرتعیش زندگی گذار سکتے تھے لیکن ان لوگوں نے عیش و آرام کی زندگی پر اپنے ملک کی خدمت کو ترجیح دی ۔
1947 ء میں ملک کی آزادی کے فوری بعد دونوں اپنے وطن عزیز ہندوستان واپس ہوگئے تاکہ نئے آزاد ملک میں کام کریں اور اس کی ترقی میں اپنا حصہ ادا کرسکیں۔ دلچسپی اور حیرت کی بات یہ ہے کہ ان لوگوں نے برطانیہ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے وطن واپسی کے بعد اس وقت ہندوستان میں کام کررہی ملٹی نیشنل کمپنیوں میں سے کسی ایک کمپنی میں شمولیت اختیار کی اور نہ ہی ہندوستان کی نجی کمپنیوں جیسے ٹاٹا یا کرلوسکر میں ملازمت کی بلکہ اُن دونوں شخصیتوں نے مذکورہ کمپنیوں کی پرکشش تنخواہوں و ملازمتوں کی بجائے عوامی شعبہ میں خدمات انجام دینے کو ترجیح دی کیونکہ عوامی شعبہ میں خدمات کی انجام دہی ان کی نظروں میں بہت زیادہ باوقار اور قابل احترام تھی ۔ حال ہی میں اس دنیا سے گذری یہ دونوں شخصیتیں جن کے اذہان و قلوب جذبۂ حب الوطنی سے سرشار تھے ایک دوسرے سے واقف نہیں تھے لیکن میری خوش قسمتی تھی کہ میں دونوں کو جانتا تھا ۔ دونوں سے میری اچھی شناسائی تھی کیونکہ دونوں میں سے ایک میرے والد کے چھوٹے بھائی تھے اور دوسرے میرے ایک قریبی دوست کے والد تھے ۔ ان لوگوں نے جس طرح سلیقہ کے ساتھ زندگی گذاری جس طرح ان میں اپنے ملک کی خدمت کا جذبہ موجود تھا اسی جذبہ کو دیکھتے ہوئے ہی اُن باوقار قابل احترام ہندوستانی شخصیتوں کے بارے میں قلم اُٹھانے کا حوصلہ ملا جنھوں نے اس ملک کی تعمیر میں غیرمعمولی مدد کی ۔
آپ کو یہ بھی بتادیں کہ ان شخصیتوں کی پیدائش دولت مند گھرانوں میں نہیں ہوئی لیکن وہ تہذیبی لحاظ و اعلیٰ اخلاقی کردار کے مثالی نمونہ تھے ۔ دونوں مرد تھے اعلیٰ ذات سے ان کا تعلق تھا اور انگریزی میں غیرمعمولی مہارت تھی ۔ شاید یہ خوبیاں ان کے ہمعصر شخصیتوں میں نہیں تھیں۔ جیسا کہ راقم نے سطور بالا میں لکھا ہے کہ ان افراد میں کوئی بھی متمول گھرانوں میں پیدا نہیں ہوا ہاں تہذیبی و ثقافتی لحاظ سے وہ موروثی اشرافیہ کا دور تھے ۔ دونوں کو دوسروں کی بہ نسبت چاہے وہ مرد ہو یا خواتین بچپن سے ہی اچھی مراعات حاصل تھیں ۔ اچھے اسکولس سے اُنھیں تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا ۔ انھیں معیاری و تکنیکی تعلیم ملی اور اس کی بنیاد پر روزگار کے بہترین مواقع بھی حاصل رہے ۔ سب سے اچھی بات یہ رہی کہ ان شخصیتوں نے مہاتما گاندھی اور پنڈت جواہر لال نہرو سے متاثر ہوکر ہی ملک و قوم کی خدمت کا فیصلہ کیا ۔ انھیں جدوجہد آزادی میں مجاہدین آزادی کی قربانیوں کا بخوبی احساس تھا اسی احساس نے ملک کی خدمت کیلئے انھیں راغب کیا۔
میرے دوست کے والد جو اودے پور سے تعلق رکھنے والے انجینئر تھے انھوں نے انڈین ریلویز میں اپنی پیشہ وارانہ زندگی گذاری ۔ ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ لاکھوں کروڑوں ہندوستانی سفر خاص طورپر کام پر آنے جانے کیلئے تعطیلات میں گھروں کو واپس ہونے نجی و خاندانی تقاریب میں شرکت کیلئے ٹرینوں پر انحصار کرتے ہیں ۔
ریلویز میں خاص طورپر موثریت کو اہمیت دی جاتی ہے یہ دیکھا جاتا ہے کہ ریل وقت پر اپنی منزل مقصود کیلئے روانہ ہو اور وقت پر اپنی منزل مقصود پر پہنچے ۔ میرے دوست کے والد نے ریلوے کو موثر بنانے اور عوام کیلئے اسے قابل بھروسہ بنانے میں اہم کردار ادا کیا ۔ ان کے کارناموں میں سے ایک کارنامہ ممبئی ۔ وڈودرا ٹرین لائین کو Steam ( بھانپ ) سے الیکٹریسٹی لائن میں تبدیل کرنا ہے کیونکہ یہ ایک انتہائی اہم مواصلاتی لائین ہے۔ اپنے کام کے ذریعہ اس انجینئر نے ریلوے کے سفر کو مزید تیز اور آلودگی سے پاک بنانے میں اہم کردار ادا کیا ۔
دوسری طرف میرے والد کے چھوٹے بھائی جو جنوب سے تعلق رکھنے والے انجینئر تھے اپنے پیشہ وارانہ کیرئیر کا پہلا حصہ انڈین ایرفورس میں گذارا ، دوسرا اور بڑا بلکہ اہم ترین حصہ ہندوستان ایروناٹکس لمیٹیڈ HALمیں گذارا ۔ انھوں نے ہمارے ملک کی دفاعی پیداوار کیلئے قومی صلاحیتوں میں اضافہ اور اس کی تعمیر میں اہم کردار ادا کیا ۔
انھوں نے پہلے اندرون ملک ڈیزائن کردہ ایر کرافٹ پر کام کیا جس میں HF24 بھی شامل ہے ۔ بعد میں بیرونی ماڈلس کی گھریلو پیداوار کیلئے خدمات انجام دیں جن میں MIG21 ایرکرافٹ شامل ہے ۔ انھوں نے ہندوستان کے آسمانوں کو محفوظ بنانے والے طیاروں کی تیاری اور ہندوستانی عوام کو خودمکتفی بنانے میں مدد کی ۔ میں اپنے چچا سے بہت زیادہ قربت رکھتا تھا اور ان کی قربت کے نتیجہ میں ہی پنے ملک میں رہ کر کام کرنے یا خدمات انجام دینے کا فیصلہ کیا ۔ HAL سے سبکدوشی کے بعد انھوں نے انڈین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس میں پڑھانا شروع کیا اور پھر ایروناٹیکل سوسائٹی آف انڈیا کے قیام اور اسے مضبوط و مستحکم بنانے میں غیرمعمولی کردار ادا کیا ۔ ان کا جو تکنیکی کام ہوتا تھا وہ لاجواب ہوا کرتا تھا ۔ ان میں ذات پات اور مذہب کا کوئی بھید بھاؤ نہیں پایا جاتا تھا ۔ اعلیٰ ذات سے تعلق پر وہ کبھی فخر نہیں کرتے تھے ہوسکتا ہے کہ یہ عادات اُنھیں اپنے ماموں اور سماجی مصلح آر گوپالاوام ائیر سے ورثہ میں ملی ہوں ۔ وہ ریاست میسور میں دلتوں کے حق کی وکالت کیا کرتے تھے ۔ ان میں ملک کی متنوع تہذیب کے تئیں بہت زیادہ احترام پایا جاتا تھا ۔ ایک لڑکا جو منگلور میں بڑا ہوا بنارس سے اپنی پہلی ڈگری حاصل کی اور جس کی آخری خدمات اوڈیشہ کے قبائیلی علاقہ میں قائم HAL فیکٹری کے کام کاج کی نگرانی تھیں جو اس نے ایم اے کے ایک طالب علم کے طورپر اس فیکٹری میں فیلڈ ورک کرتے ہوئے گذارے ۔ آپ کو جنوب اور شمال کے ان دونوں انجینئرس کے نام بتاتا ہوں کرناٹک سے تعلق رکھنے والے انجینئر سبرامنیم چینا کیشو تھے اور راجستھان سے تعلق رکھنے والے انجینئر شری گوپال ترویدی تھے ۔ ان دونوں کی خوش نصیبی یہ تھی کہ وہ اپنے دوست احباب کے چہیتے تھے ۔