جو بائیڈن کی نتن یاہو کو سنگین نتائج کی دھمکی

,

   

واشنگٹن: امریکی جوبائیڈن انتظامیہ اور اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو کی حکومت کے درمیان بظاہر اختلافات پائے جاتے ہیں۔ جوبائیڈن اپنے اتحادی نتن یاہو کے بارے میں یہ تاثر دے رہے ہیں کہ ان دونوں کے درمیان آخری فون کال بہت بری اور گرماگرم تھی۔ایک باخبر ذریعے نے اس فون کال کے حوالے سے کچھ اندر کی باتوں کا دعویٰ کیا ہے کہ جوبائیڈن جو اس وقت وائٹ ہاؤس میں بطور صدر دوبارہ آنے کے لیے کوشاں ہیں اور انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔ اس ذریعے کے مطابق جو بائیڈن نے نتن یاہو کو فون کال پر دھمکیاں بھی دی ہیں۔واضح رہے غزہ میں چھ ماہ کے دوران کی جنگ کے نتیجے میں بہت بڑی تعداد میں فلسطینی عورتوں اور بچوں کی ہلاکتوں کے باعث ڈیموکریٹس کے حامی نوجوانوں میں بھی سخت ردعمل پیدا ہونا شروع ہو چکا ہے۔تازہ عوامی جائزوں میں یہ بات سامنے آرہی ہے کہ اسرائیل کی غزہ جنگ کے بارے میں امریکی پالیسی کے باعث صدر جو بائیڈن اپنی مقبولیت کھوتے جا رہے ہیں۔ اس لیے اس کے باوجود کہ ابھی امریکہ کے اسرائیل کے بارے میں پالیسی میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں ہے لیکن دونوں ملکوں کے درمیان ناراضگی کا تاثر بہت گہرا دکھایا جا رہا ہے۔اس پس منظر میں ان ذرائع کا دعویٰ ہے کہ امریکہ اسرائیل کے بارے میں اپنی پالیسی کا از سر نو جائزہ لے سکتا ہے اور امداد کو غزہ میں شہری ہلاکتوں کے ساتھ منسلک کر کے مشروط بنا سکتا ہے۔ذرائع کے مطابق جوبائیڈن نے یہ اشارہ بھی دیا ہے کہ اگر غزہ میں شہریوں کی ہلاکتوں میں کوئی کمی نہیں ہوتی تو اسرائیل کو اسلحہ سپلائی کی پالیسی میں بھی تبدیلی ہو سکتی ہے۔ اہم بات ہے کہ امریکی صدر جوبائیڈن نے یہ دھمکی جنگ کے ساتویں مہینے میں داخل ہونے کے موقع پر دی ہے۔ جبکہ اس سے پہلے اسلحہ کی سپلائی اور ہر طرح کی فوجی اور مالی امداد اسرائیل کے نام کیے رکھی ہے۔ جس کے نتیجے میں اب تک 33137 فلسطینی غزہ میں اسرائیلی فوج کے ہاتھوں قتل ہو چکے ہیں۔
اس دوران جوبائیڈن انتظامیہ کے ایک ذمہ دار نے اس امر کی تصدیق کی کہ امریکہ کس کس طرح اس مشکل اور پیچیدہ صورتحال کے باوجود غزہ کی جنگ میں اسرائیل کی حمایت کر رہا ہے۔امریکی انتظامیہ کے اس حکام کے مطابق امریکی ادارے ‘ورلڈ سینٹرل کچن’ کی سات رکنی ٹیم کی ہلاکت جس میں ایک امریکی اور کینیڈین دوہری شہریت کا حامل ٹیم رکن بھی تھا ایک کھلا المیہ ہے۔ اس کے بعد جوبائیڈن انتظامیہ کی اسرائیل کی آپریشنل حکمت عملی کے بارے میں تشویش میں اضافہ ہوا ہے۔اس کے باوجود امریکی صدر ابھی تک عملی طور پر اسی مؤقف کے حامی ہیں کہ اسرائیل کے لیے امریکی امداد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ تاہم یہ بھی حقیقیت ہے کہ دونوں ملکوں کے اعلیٰ ترین حکام میں زبانی کلامی حد تک کافی اختلاف نظر آ رہا ہے۔