جہاں بے خوف ذہن متاثر ہوتے ہیں شاہ فیصل کا فیصلہ ‘ جمہوریت مجروح ہونے کا عکاس

   

بدری رائنا
جب شاہ فیصل نے ہندوستان کی سیول سروسیس میں داخلہ کیلئے مقابلہ کا امتحان تحریر کیا تھا تو انہوں نے جمہوریت کی اہمیت میں اپنے یقین کا اظہار کیا تھا ۔ 2010 میں جب انہوں نے سیول سروسیس کے کامیاب امیدواروں کی فہرست میں اول مقام حاصل کیا تھا تو جمہوریت میں ان کا یقین درست ثابت ہوا تھا اور اس سے ہندوستان کی ہمہ جہتی اور یکجہتی والی جمہوریت کا پتہ چلا تھا ۔

بگڑتے ہوئے ثقافتی اور انتظامی حالات سے آٹھ سال تک نمٹنے کے بعد ایک مثال بننے والے شاہ فیصل نے ملک کی سیول سروسیس سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کرلیا ۔ یہ فیصلہ انہوں نے کشمیر میں ہلاکتوں کا سلسلہ جاری رہنے اور حکومت ہند کی جانب سے ملک کے 200 ملین ہندوستانیوں کو ہندوتوا طاقتوں کی جانب سے نشانہ بنائے جانے کو روکنے کیلئے آگے آنے سے گریز کی وجہ سے کیا تھا ۔ ہندوتوا طاقتوں کے اس عمل نے ملک کے مسلمانوں کو دوسرے درجہ کا شہری بنادیا ہے ۔
اپنے مکتوب استعفی میں شاہ فیصل نے جذباتی قوم پرستی کے نام پر بڑھتے ہوئے عدم رواداری کے کلچر کا خاص طور پر تذکرہ کیا تھا ۔ شاہ فیصل کو ہوسکتا ہے کہ متوقع گوشوں سے تنقیدوں کا نشانہ بنایا گیا ہو۔ یہ بھی قابل فہم ہے کہ انہیں فرقہ پرست قرار دیا گیا ہو یا پھر ان کو جناح سے بھی جوڑا جاسکتا ہے ۔ یہ ہم سب جانتے ہیں لیکن ہم ان سب سے اتفاق نہیں کرتے ۔ اطلاعات کے مطابق شاہ فیصل قومی دھارے کی کشمیری سیاست میں داخلہ پر غور کر رہے ہیں جیسا کہ ایک وقت میں یشونت سنہا نے کیا تھا ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ شاہ فیصل جمہوری اور سیاسی کارروائی کو ‘ اپنے انتظامی یا بیوروکریٹک کیرئیر سے ان تبدیلیوں کیلئے زیادہ موثر سمجھتے ہیں جو وہ کرنا چاہتے ہیں اور ان کے خیال میں ایک دستوری جمہوریت میں زیادہ بہتر ہیں۔
ایک اور مثال دیکھئے ۔ یہ مثال معروف اداکار نصیر الدین شاہ کی ہے ۔ ان کے بیانات میں جو تکلیف تھی کہ اکثریتی نراج اب خود ایک قانون بنتا جا رہا ہے اور یہ ایک ایسے نکتہ پر پہونچ گیا ہے کہ ایک بے قابو ہجوم ایک پولیس انسپکٹر کو اس کی ڈیوٹی کے دوران قتل کردیتا ہے ۔ اس واقعہ کو اتنی اہمیت نہیں دی جاتی جتنی ایک گائے کی ہلاکت کو دی جاتی ہے ۔ کیا یہ بات معنی رکھتی ہے کہ انہوں نے اس ملک کے شہری کے طور پر یہ بات کی ہے یا ایک مسلمان کی حیثیت سے بیان دیا ہے ؟ ۔ یہ بات ذہن نشین رکھنے کی ضرورت ہے کہ ان کا خاندان بین طبقاتی شادی والا ہے ۔ کیا یہ بات زیادہ اہم نہیں ہے کہ حالیہ وقتوں میں انسانیت اور دستوری اقدار کی اہمیت گھٹ گئی ہے ؟ ۔
نصیر الدین شاہ کو بھی نشانہ بنایا گیا اور انہیں بھی ایک غیر مطمئن مسلمان قرار دیدیا گیا ۔ یہ کہا گیا کہ اس ملک نے انہیں جو عزت و احترام دیا ہے وہ اس کے شکرگذار نہیں ہیں۔ نصیر الدین شاہ نے شائد یہ سوال کیا تھا کہ کیا یہ وہی ملک ہے جس نے ماضی میں مثالیں قائم کی تھیں۔ جہاں فلموں کے تعلق سے ایک کتاب کا حوالہ دیا جاتا تھا جو لارڈ میگھ ناڈ دیسائی نے تحریر کی تھی ۔ اس کتاب کا عنوان ’’ نہرو کا ہیرو۔ دلیپ کمار ۔ ہندوستان کی زندگی میں ‘‘ تھا ۔

اس کتاب کے ذریعہ یہ واضح کرنے کی کوشش کی گئی تھی کہ کس طرح ہندوستانی سنیما نے نہرو کے دور میں آزاد جمہوریت کی بنیادی اقدار کو فروغ دیا تھا ۔ ان میں امید ‘ مثبت سوچ ‘ سکیولر ازم ‘ کثرت میں وحدت وغیرہ شامل تھے ۔ نصیر الدین شاہ کے پاس شائد یہ عذر ہوسکتا ہے کہ وہ ہندوستان تیزی سے کہیں غائب ہوتا جا رہا ہے جہاں ان کی نسل کے نوجوانوں نے پرورش پائی تھی اور خود کو اس سے وابستہ کرلیا تھا ۔
پروفیسر ہیرین گوہین کی مثال لے لیجئے ۔ اب ان کی عمر 80 سال ہے ۔ ان پر غداری کا الزام عائد کیا گیا ہے ۔ اپنے وقت کے دوسرے اسکالرس کے برخلاف ‘ جو بہتر کیرئیر کیلئے ملک سے باہر چلے گئے اور واپس نہیں آئے ‘ گوہین نے کیمبرج سے پی ایچ ڈی حاصل کرکے گوہاٹی یونیورسٹی میں تدریس کو ترجیح دی ۔ انہیں امید تھی کہ وہ اپنی سوچ اور فکر کو دوسروں میں منتقل کرسکیں گے جیسا کہ میگھناتھ دیسائی نے اپنی کتاب میں واضح کیا تھا ۔ آخر میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ری ایکشن کی طاقتوں نے انہیں بھی نہیں چھوڑا ہے کیونکہ انہوں نے ایک تقریر میں آسام میں پیش آنے والی تبدیلیوں کی مخالفت کی تھی اور خاموشی اختیار کرنے سے انکار کردیا تھا ۔ آسام میں سٹیزنس ترمیمی بل کی شدت سے مخالفت ہو رہی ہے ۔

آج بھی کئی ناگا سیاسی تنظیمیں سالمیت کیلئے اپنے حق کی بات کرتی ہیں۔ لیکن جہاں تک ہم جانتے ہیں کسی کے خلاف بھی غداری کا الزام عائد نہیں کیا گیا ۔ اس کے برخلاف ناگا مسئلہ کو حل کرنے کیلئے پس پردہ بات چیت جاری رکھی گئی تھی ۔ ہاں لیکن ایک بے مثال اسکالر اور استاذ کو جس نے خود کو ہندوستان کیلئے وقف کردیا تھا ‘ اس کی جمہوری اور معقول مستقبل کیلئے جدوجہد کی تھی اس پر غداری کا الزام عائد کردیا گیا کیونکہ انہوں نے احتیاط سے کام کرنے پر زور دیا تھا ۔
کیا یہ تین مثالیں کافی نہیں ہیں کہ ہم اس بات پر غور کریں کہ ہماری دستوری جمہوریت کس سمت جا رہی ہے ؟ ۔
حالیہ قومی دھارے کی سیاست کا ایک افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ جو سیاسی جماعتیں ہندوستان کو غیر فرقہ واری اور جمہوری راستہ پر گامزن کرنے کا حصہ رہی ہیں وہ بھی اب سیاست اور سماج کے محروم طبقات کے مسائل اور پریشانیوں کو بیان کرنے سے گریز کرنے لگی ہیں۔ انہیں اندیشے ہیں کہ وہ اکثریتی طبقہ کو ناراض نہ کر بیٹھیں۔ کیا مقبولیت حاصل کرنے کیلئے یہ رجحان جاری رہنا چاہئے ؟ ۔ اگر ہم ان آوازوں کو نہیں سنیں گے جنہیں دبایا جا رہا ہے تو پھر ہم اپنا دن ضائع کر رہے ہیں۔