جی ایس ٹی کونسل میں بھی اکثریتی غلبہ

   

ہندوستان میں 2017 میں نیا ٹیکس نظام جی ایس ٹی لاگو کیا گیا ۔ اس وقت سے ریاستوں کی جانب سے مسلسل یہ الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ جو محاصل وصول کئے جا رہے ہیں ان کا ایک بڑا حصہ مرکزی حکومت وصول کر جاتی ہے ۔ ریاستوں کو اپنے ٹیکسیس اور محاصل کا خاطر خواہ حصہ نہیں مل رہا ہے ۔ جو حصہ ریاستوں کا بن رہا ہے وہ بھی جاری کرنے میںمرکز کی جانب سے پس و پیش کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے اور سیاسی وابستگیوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ رقومات جاری کی جا رہی ہے ۔ اس طرح کا عمل در اصل و فاقی طرز حکمرانی کے مغائر کہا جاسکتا ہے ۔ ہندوستان ایک ایسا جمہوری ملک ہے جہاں وفاقی طرز حکمرانی ہے ۔ مرکزی حکومت ریاستوں کو ساتھ لے کر چلتی ہے ۔ ریاستوں کی ضروریات کا خیال رکھا جاتا ہے ۔ محاصل میں ان کے حصے کا تعین کرتے ہوئے ان کی اجرائی عمل میں لائی جاتی ہے ۔ اس بات کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی کہ کس ریاست میں کس جماعت کی حکومت ہے ۔ مرکز میں کون برسر اقتدار ہے ۔ سارا کچھ ہندوستانی طرز حکمرانی کے مطابق کیا جاتا رہا ہے ۔ تاہم حالیہ عرصہ میں یہ الزامات عام ہوتے جا رہے ہیں کہ سیاسی وابستگیوں کی بنیاد پر ریاستوں سے بھی امتیاز برتا جا رہا ہے ۔ مرکز میں بی جے پی برسر اقتدار ہے ۔ جن ریاستوں میں بی جے پی کی حکومتیں ہیں ان کے تعلق سے تو مرکز کا رویہ ہمدردانہ ہے ۔ ان کے تعلق سے کسی طرح کی رکاوٹ پیدا نہیں کی جا رہی ہے ۔ انہیں فنڈز بھی وافرفراہم کئے جا رہے ہیں۔ ان کے ساتھ کسی طرح کا بھید بھاؤ نہیں ہو رہا ہے ۔ مرکزی حکومت کی جانب سے ہنگامی فنڈز کی اجرائی میں بھی ان ریاستوں کو زیادہ حصہ دیا جا رہا ہے ۔ اس کے برخلاف ان ریاستوں سے امتیاز برتا جا رہا ہے جہاں دوسری جماعتوں کی حکومتیں ہیں۔ ان ریاستوں کے جو واجبی اور جائز فنڈز ہیںان کی اجرائی بھی تواتر کے ساتھ نہیں ہو رہی ہے بلکہ اس میں رکاوٹیں پیدا کی جا رہی ہیں۔ ہنگامی نوعیت کے حالات میںفنڈز فراہم کرنے میں بھی ان ریاستوں سے امتیاز برتا جا رہا ہے ۔ خاص طور پر جی ایس ٹی کی واجبات اور بقایہ جات کی ادائیگی میں تاخیر کی جا رہی ہے ۔
ماہر معاشیات اور مغربی بنگال کے سابق وزیر فینانس امیت مترا کا کہنا ہے کہ جی ایس ٹی کونسل میں بھی اب ماحول کو پراگندہ کردیا گیا ہے ۔ وہاں بھی اکثریت کے غلبہ والا رویہ اختیار کیا جا رہا ہے ۔ انہوں نے ماضی کی مثالیں پیش کرتے ہوئے کہا کہ ماضی میں بھی اختلاف رائے ہوا کرتا تھا ۔ جو ریاستیں مرکزی تجاویز کی مخالفت کرتی تھیں ان کو سنا جاتا تھا ۔ ان پر اتفاق رائے بنانے کی کوشش کی جاتی ۔ اختلاف یا اعتراض اگر واجبی ہوتا تو اس کا اعتراف کیا جاتا اور اس شکایت کے ازالہ میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی جاتی ۔ تاہم حالیہ عرصہ میں جی ایس ٹی کونسل میں بھی ملک کے دوسرے اداروں کی طرح اکثریت کے غلبہ والی صورتحال پیدا کردی گئی ہے ۔ کونسل کے ماحول کو انتہائی اختلاف والا بنادیا گیا ہے ۔ اس کے ذریعہ ریاستوں کے ساتھ مرکز کے اشتراک کے امکانات متاثر ہونے لگے ہیں۔ یہ طریقہ کار در اصل وفاقی طرز حکمرانی کے مغائر کہا جاسکتا ہے ۔ اب تک کی روایات سے انحراف میں کوئی عار محسوس نہیں کیا جا رہا ہے اور نہ ہی قوانین وغیرہ کا کوئی پاس و لحاظ کیا جا رہا ہے ۔ صرف اکثریت کے زعم میں مبتلا ہو کر فیصلے کئے جا رہے ہیں۔ امیت مترا کا یہ بھی کہنا تھا کہ کئی مرتبہ ایسی صورتحال پیدا ہو رہی ہے جس میں اختلافات پر کوئی فیصلہ تک نہیں کیا جا رہا ہے اور صرف ایک رائے ظاہر کرتے ہوئے اسے سب پر مسلط کرنے سے گریز نہیں کیا جا رہا ہے ۔ یہ طریقہ کار وفاقی طرز حکمرانی اور مرکز ریاست تعلقات کی راہ میں بڑا مسئلہ بن رہا ہے ۔
جس صورتحال کا جی ایس ٹی کونسل کے تعلق سے اظہار کیا جا رہا ہے وہ صورتحال ملک کے کئی اداروں میں پیدا ہونے لگی ہے ۔ بی جے پی ہر ادارہ میں اپنی اکثریت کے غلبہ کے تحت فیصلے کرنے سے گریز نہیں کر رہی ہے ۔ ریاستیں بھی ان تمام اداروں میں برابر کی حصہ دار ہیں۔ ان کے اپنے مسائل ہیں۔ ان کی اپنی ترجیحات ہیں۔ ان کی اپنی پالیسیاں ہیں۔ ان کو پیش نظر رکھتے ہوئے وہ اپنی تجاویز وغیرہ پیش کرتی ہیں لیکن ان پر غور نہیں کیا جا رہا ہے ۔ مرکزی حکومت کے منصوبوں کو ریاستوں پر بھی مسلط کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ یہ کوششیں درست نہیں ہیں اور ان کے نتیجہ میں وفاقی طرز کی حکمرانی متاثر ہو رہی ہے ۔ مرکزی حکومت کو اکثریتی غلبہ کے تحت کام کرنے کی بجائے اتفاق رائے کو ترجیح دینے کی ضرورت ہے ۔ ملک کے وفاقی نظام و طرز حکمرانی کو ترجیح دینے کی ضرورت ہے ۔
کھیل کود کے اداروں میں بھی استحصال
ملک میں وقفہ وقفہ سے خواتین آگے آتے ہوئے اپنے ساتھ ہونے والے استحصال اور جنسی زیادتیوں کے الزامات عائد کرتی رہتی ہیں۔ جن افراد کے خلاف یہ الزامات عائد کئے جاتے ہیں وہ طاقتور ہوتے ہیں اور ان کے خلاف کوئی سخت کارروائی نہیں ہوتی ۔ اب کھیل کود کے ادارے بھی اس سے مستثنی نہیں رہ گئے ہیں۔ ویسے تو کوچس اور دوسرے ذمہ داروں کے خلاف کسی ایک اتھیلیٹ کی جانب سے اس طرح کے الزامات عائد کئے جاتے رہے ہیں لیکن ان شکایتوں پر کوئی خاطر خواہ کارروائی نہ ہونے کے سبب ہی صورتحال بگڑتی چلی گئی ہے اور باضابطہ اداروں کے ذمہ داروں کے خلاف بھی الزامات عائد ہونے لگے ہیں۔ یہ ذمہ داران بھی حکومت کے حمایتی ہوتے ہیں۔ ایسے میں ان کے خلاف کارروائیاں نہیں ہو پا رہی ہیں ۔ حکومت کو ساری صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے الزامات کی غیر جانبداری سے تحقیقات کروانی چاہئیں اور خاطی ذمہ داران اور عہدیداروں کو کیفر کردار تک پہونچایا جانا چاہئے ۔