جی 20 چوٹی کانفرنس کا کامیاب انعقاد

   

ہندوستان میںجی 20 کانفرنس کا انعقاد عمل میں آیا ۔ یہ چوٹی کانفرنس یا اجلاس کئی طرح سے اہمیت کا حامل رہا ہے ۔ اس میں عالمی قائدین کی شرکت بجائے خود ایک بڑی کامیابی سمجھی جا رہی ہے ۔ امریکی صدر جو بائیڈن ‘ برطانوی وزیر اعظم رشی سونک ‘سعودی عرب کے ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان ‘ چین کے وزیر اعظم اور روسی نمائندوں نے بھی اس اجلاس میںشرکت کی ہے ۔ یہ ایک طرح سے عالمی قائدین کا میلہ کہا جاسکتا ہے جس میں کئی اہم امور پر نہ صرف تبادلہ خیال ہوا بلکہ اتفاق رائے بھی پیدا ہوا ہے اور ایک اعلامیہ بھی جاری کیا گیا ہے ۔ کئی دن سے دہلی چوٹی کانفرنس کے دوران اعلامیہ کی اجرائی کے تعلق سے کئی طرح کے خیالات اور قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں۔ جہاں کچھ گوشوں کی جانب سے اعلامیہ کی منظوری کے تعلق سے مثبت امیدیں ظاہر کی جا رہی تھیں وہیں کچھ گوشوں سے اندیشوں اور شبہات کا اظہار بھی کیا جا رہا تھا ۔ ایسا نہیں ہے کہ یہاں اندیشے بے بنیاد تھے بلکہ اندیشے بھی واجبی وجوہات کی بناء پر ظاہر کئے جا رہے تھے ۔ تاہم آج اعلامیہ کی اجرائی اور منظوری نے ایک اچھی پیشرفت کی ہے اور اس کی اہمیت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ جو اعلامیہ جاری کیا گیا ہے اس میں یہ واضح کردیا گیا ہے کہ جو اقوام اور ممالک اس گروپ کے ارکان ہیں ان پر بھی اور دوسرے ممالک پر بھی زور دیا گیا ہے کہ وہ بین الاقوامی قوانین کا احترام کریں۔ دوسرے ممالک کی علاقائی سلامتی کا احترام کیا جائے ۔ استحکام اور امن کو یقینی بنایا جائے اور بین الاقوامی انسانی حقوق قوانین کے احترام کو یقینی بنایا جائے ۔ روس اور یوکرین کی جنگ کے تناظر میں یہ ایک اہم اعلامیہ کہا جاسکتا ہے ۔ اس کے علاوہ انسانی حقوق قوانین کے مسئلہ کو چین کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ روس اور چین نے بھی اس اعلامیہ سے اتفاق کیا ہے ۔ ہندوستان کی قیادت و نگرانی میںہونے والی اس چوٹی کانفرنس میں اس اعلامیہ کی اجرائی اور اس کے مواد اور متن سے روس اور چین کا اتفاق کرنا یقینی طور پر ایک اہم کامیابی ہے اور یہ کامیابی ہندوستان کی کامیابی سے بھی تعبیر کی جاسکتی ہے ۔ اس چوٹی کانفرنس میں بین الاقوامی اہمیت کے حامل دیگر کئی امور پر تبادلہ خیال کیا گیا ہے ۔
ہندوستان میں ہونے والی اس چوٹی کانفرنس نے عالمی امور میں ہندوستان کے اہم ترین رول کو بھی ظاہر کیا ہے ۔ آج ساری دنیا میں جو حالات ہیں ان سے کئی ممالک پریشان کن صورتحال کا شکار ہیں۔ ایسے میںہندوستان کا جو قائدانہ رول ابھر کر سامنے آ رہا ہے وہ خوش آئند ہے اور یہ رول در اصل گذشتہ کئی برسوں سے جاری سفارتکاری اور ہندوستان کی ترقی کے اعتراف کے مترادف ہے ۔ ہندوستان نے اپنی آز ادی کے بعد کئی دہوں میں عالمی امور میں جو موقف اختیار کئے تھے اس کو دنیا نے تسلیم کیا ہے اور اب اس کے عالمی سطح پر قائدانہ سفارتی رول کا اعتراف بھی ہونے لگا ہے ۔ یہ ہندوستان کی ایک بڑی کامیابی ہے ۔ جہاں تک معاشی امور کا سوال ہے تو اس چوٹی کانفرنس سے کئی معاہدات کو بھی قطعیت دی جا رہی ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ صرف جی 20 چوٹی کانفرنس کا ہی انعقاد عمل میںآیا ہے ۔ جو عالمی قائدین اس چوٹی کانفرنس میںشرکت کر رہے ہیں انہوں نے ہندوستان کے ساتھ باہمی ملاقاتوں اور بات چیت کو بئی انتہائی دلچسپی سے آگے بڑھایا ہے ۔ کئی قائدین نے ہندوستان کے ساتھ کچھ معاہدات پر بھی بات چیت کی ہے اور کچھ معاہدات طئے بھی پائے ہیں ۔ یہ بھی ہندوستان کی عالمی امور میں اہمیت کی عکاسی کرتے ہیں۔ اس سے ہندوستان کی معیشت کے استحکام میں بھی مدد ملے گی اور ہندوستان میں سرمایہ کاری اور دیگر جو مواقع دستیاب ہیں ان سے بھی مختلف ممالک اور ان کے سرمایہ کاروں کو واقف کروانے کا موقع ملا ہے ۔
حالیہ عرصہ میں ایک اور بات محسوس کی جا رہی تھی کہ دنیا کے مختلف ممالک کے مابین کئی معاہدات ہو رہے تھے ۔ کئی امور اور موضوعات پر بات چیت ہو رہی تھی تاہم مختلف ممالک کے مابین اعتماد کی کمی محسوس ہو رہی تھی ۔ ایک دوسرے کے تعلق سے تحفظات اور اندیشے بھی لاحق رہے تھے ۔ تاہم دہلی کی جی 20 چوٹی کانفرنس نے اعتماد کی بحالی میں اہم رول ادا کیا ہے ۔ جو اندیشے اور شبہات تھے ان کو بھی باہمی ملاقاتوں اور بات چیت سے دور کرنے میں مدد ملی ہے ۔ عالمی قائدین کی ایک دوسرے سے خوشگوار اوگرمجوشانہ ملاقاتیں اس کا ثبوت ہیں۔ بحیثیت مجموعی یہ کہا جاسکتا ہے کہ جی 20 اجلاس کا ہندوستان نے انتہائی کامیاب انعقاد عمل میں لایا ہے اور اس کے ثمرات سے ساری دنیا مستفید ہوسکتی ہے ۔
چندرا بابو نائیڈو کی گرفتاری
آندھرا پردیش میں بالآخر وہی ہوا جس کا سیاسی حلقوں میں اندیشہ ظاہر کیا جا رہا تھا ۔ سابق چیف منسٹر و صدر تلگودیشم پارٹی این چندرا بابو نائیڈو کو گرفتار کرلیا گیا ۔ ڈرامائی تبدیلیوں کے بعد نائیڈو کی گرفتاری عمل میں لائی گئی ہے ۔ 370کروڑ کے اسکل ڈیولپمنٹ کارپوریشن اسکام میں یہ گرفتاری عمل میں لائی گئی ہے جس میں چندرا بابو نائیڈو کو ملزم نمبر 1 بنایا گیا تھا ۔ اس اسکام کی تحقیقات اب تک کس نہج پر آگے بڑھی ہیں اس میں ملزم کون ہیں ‘ سازشی کون ہیں اور اس کے استفادہ کنندگان کون ہیں یہ ایک الگ پہلو ہے تاہم جہاںتک نائیڈو کی گرفتاری کا سیاسی پہلو ہے تو اس سے سابق چیف منسٹر کی عوامی ہمدردی میںاضافہ ہونے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے ۔ چندرا بابو نائیڈو آندھرا پردیش کی سیاست میں اپنی کھوئی ہوئی مقبولیت کو بحال کرنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ وہ ریاست کی جگن موہن ریڈی حکومت کے خلاف نبرد آزما ہیں اور عوامی تائید حاصل کرنے ہر ممکن جدوجہد کر رہے ہیں۔ ایسی صورتحال میں چندرا بابو نائیڈو کی گرفتاری ان کیلئے ایک طرح سے تحفہ سے کم نہیں ہے ۔ جس طرح راہول گاندھی کے خلاف مودی حکومت کی کارروائیوں نے ان کی مقبولیت کو چار چاند لگادئے تھے اسی طرح چندرا بابو نائیڈو کی گرفتاری بھی ان کی سیاسی مقبولیت میں اضافہ کا سبب بن سکتی ہے ۔