حاکم مرے خلاف سپاہی مرے خلاف

,

   

کجریوال کا ماسٹر اسٹروک… جیل سے چیف منسٹر
عدلیہ کا تحفظ … 600 وکلاء کا مکتوب

رشیدالدین
’’غیر معلنہ ایمرجنسی‘‘ جب کبھی حکومت کی جانب سے دستوری اور جمہوری اداروں کو پامال کرتے ہوئے اپوزیشن کی آواز کچلنے کی کوشش کی جاتی ہے تو غیر معینہ ایمرجنسی کہا جاتا ہے ۔ ہندوستان میں نریندر مودی سرکار کیلئے تانا شاہی اور غیر معلنہ ایمرجنسی کا لفظ چھوٹا پڑ جائے گا۔ مودی کی من مانی اور ظلم و ہراسانی کیلئے ڈکشنری سے ہٹ کر نئے الفاظ ایجاد کرنے پڑیں گے ۔ بادشاہی نظام میں حاکموں کے ظلم کے بارے میں بہت کچھ لکھا اور کہا گیا۔ حالیہ عرصہ کے ڈکٹیٹر حکمرانوں کا ذکر کریں تو ہٹلر کا نام سرفہرست دکھائی دیتا ہے لیکن ہندوستان سے نریندر مودی نئی تاریخ رقم کرنے جارہے ہیں جہاں مورخ آنے والی نسلوں کو موجودہ وقت کے ڈکٹیٹر سے متعارف کرائیں گے ۔ اختلاف رائے کے بغیر جمہوریت کا تصور ادھورا ہے۔ ہندوستان ان دنوں اپوزیشن کو مٹانے کی مہم پر ہے۔ جو بھی مخالفت کرے اسے سی بی آئی اور انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ کے ذریعہ جیلوں میں بند کردیا جاتا ہے ۔ کسی نے خوب لکھا کہ انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ اور سی بی آئی تو سویگی اور زوماٹو سے بھی زیادہ تیز ہیں۔ مہاراشٹرا میں شیوسینا نے صبح 9 بجے ایک امیدوار کا اعلان کیا اور ایک گھنٹہ بعد یعنی 10 بجے انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ نے گھر پر دستک دے دی ۔ مخالفین کے خلاف انتقامی کارروائیوں نے جب تمام حدود کو پار کرلیا تو اروند کجریوال کی شکل میں بی جے پی کو استاد مل گیا جو لوک سبھا چناؤ میں مودی اور بی جے پی کی الٹی گنتی کا سبب بن سکتے ہیں۔ کسی اور سے مقابلہ بی جے پی کیلئے آسان ضرور ہوگا لیکن کجریوال سے ٹکر اور پنگا لینا بی جے پی اور مودی کو مہنگا پڑسکتا ہے ۔ کجریوال کی گرفتاری کے چند دنوں میں بی جے پی کو احساس ہونے لگا کہ اس نے کجریوال کو گرفتار کر کے نہ صرف غلطی کی ہے بلکہ اپنے زوال کو دعوت دی ہے ۔ مودی نے اپنے غرور اور تکبر میں یہ تصور کرلیا تھا کہ وہ جسے چاہیں اور جب چاہیں اٹھاکر جیل میں بند کرسکتے ہیں۔ راہول گاندھی کی لوک سبھا رکنیت کو ختم کرنے کے باوجود عوامی مخالفت کا سامنا نہیں ہوا تھا جس کے بعد مودی اینڈ کمپنی کے حوصلے بلند ہوگئے ۔ شیبو سورین اور بی آر ایس قائد کویتا کو گرفتار کیا گیا ۔ دہلی میں تین چوتھائی اکثریت کے ساتھ دوسری مرتبہ عوامی منتخب حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی سازش کی گئی ۔ پہلی مرتبہ 70 میں 67 اور دوسری بار 62 نشستوں پر کامیابی کے ذریعہ اروند کجریوال بی جے پی اور مودی کی آنکھوں میں کھٹک رہے ہیں ۔ مودی کو اندازہ نہیں تھا کہ وہ کس کو چھیڑ رہے ہیں ۔ کجریوال کی گرفتاری سے نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا بھر میں ملک کی رسوائی کا سامان ہوا ہے ۔ امریکہ نے کجریوال معاملہ کی جانچ میں شفافیت کا مشورہ دیا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کانگریس کے بینک اکاؤنٹس کو منجمد کرنے پر تشویش کا اظہار کیا ہے ۔ الغرض مودی اینڈ کمپنی نے کجریوال سے پہلے ڈپٹی چیف منسٹر منیش سیسوڈیہ ، سنجے سنگھ اور ستیندر جین کو جیل بھیج دیا تاکہ الیکشن میں عام آدمی پارٹی کی مہم چلانے والا کوئی نہ رہے ۔ کجریوال کی گرفتاری فائدہ کے بجائے الٹا نقصان کا سبب بن چکی ہے۔ کجریوال کی گرفتاری دراصل دہلی میں عام آدمی حکومت کے خاتمہ کی سازش تھی۔ جس طرح دیگر ریاستوں میں اپوزیشن حکومتوں کو بیدخل کیا گیا۔ کجریوال حکومت کے خاتمہ کا خواب مودی نے دیکھا تھا لیکن یہ خواب شائد ہی کبھی پورا ہو کیونکہ عوام حکومت کے ساتھ ہیں۔ اروند کجریوال نے گرفتاری کے بعد ماسٹر اسٹروک کے ذریعہ مودی اور ان کے ساتھیوں کو ڈھیر کردیا ہے ۔ کجریوال کی برطرفی کیلئے دہلی ہائی کورٹ میں دائر کردہ مفاد عامہ کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے عدالت نے واضح کردیا کہ چیف منسٹر جیل سے حکومت چلانے کا دستوری حق رکھتے ہیں اور اس حق سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔ کجریوال جیل سے عوامی مسائل پر عہدیداروں کو ہدایات جاری کر رہے ہیں۔ کجریوال نے دہلی کی مقامی عدالت میں شخصی طور پر اپنی پیروی خود کرتے ہوئے شراب اسکام میں سی بی آئی اور انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ کی پول جج کے سامنے کھول دی ۔ انہوں نے کسی ثبوت کے بغیر محض چند افراد کے بیانات پر چیف منسٹر کو گرفتار کرنے کو چیلنج کیا۔ کجریوال نے شراب اسکام میں گواہِ معافی یافتہ کی جانب سے بی جے پی کو 55 کروڑ روپئے عطیہ دینے کا ثبوت عدالت میں پیش کیا۔ الیکٹورل بانڈ کے ذریعہ شراب اسکام کے ملزم نے بی جے پی کو بھاری عطیہ دیا جو بی جے پی کی مخالف کجریوال سازش کا کھلا ثبوت ہے۔ کجریوال اور ان کے ساتھیوں کو بھلے ہی طویل عرصہ تک جیل میں رکھتے ہوئے دہلی میں عام آدمی پارٹی کو شکست دینے کا منصوبہ تیار کیا جائے لیکن گرفتاری نے عوامی ہمدردی میں اضافہ کردیا ہے ۔ کجریوال کی گرفتاری نے اپوزیشن کو متحد کردیا۔
ہندوستان کو ان دنوں داخلی معاملات میں امریکہ کی مداخلت پر اعتراض ہے ۔ کجریوال معاملہ میں امریکی عہدیداروں کے بیان کے بعد وزارت خارجہ نے ہندوستان میں امریکی سفیر کو طلب کرتے ہوئے احتجاج درج کرایا۔ وزارت خارجہ کا کہنا تھا کہ کسی بھی ملک کو ہندوستان کے داخلی معاملات میں مداخلت کا حق نہیں ہے۔ ہندوستان کی دھمکی اور احتجاج کا امریکہ پر کس قدر اثر ہوا ، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ چند گھنٹوں بعد واشنگٹن میں امریکی حکومت کے ترجمان نے دوسری مرتبہ کجریوال کی گرفتاری پر تشویش ظاہر کی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ داخلی معاملات میں مداخلت کیلئے امریکہ کو اس قدر دلچسپی کیوں ہے؟ ہندوستان کے احتجاج کا امریکہ پر اثر کیوں نہیں ہوا ؟ ان سوالات کا جواب خود نریندر مودی بہتر طور پر دے سکتے ہیں۔ داخلی معاملات میں مداخلت کا آغاز تو نریندر مودی نے امریکی صدارتی الیکشن کے وقت کیا تھا ۔ مودی نے اپنے دوست ٹرمپ کے حق میں امریکہ میں نہ صرف انتخابی مہم چلائی بلکہ ’’اب کی بار ٹرمپ سرکار‘‘ کا نعرہ دیا تھا۔ تاریخ میں شائد یہ پہلا موقع تھا جب دوسرے ملک کا سربراہ کسی اور ملک میں پہنچ کر انتخابی مہم میں حصہ لے رہا ہو۔ نریندر مودی نے امریکہ کے داخلی معاملہ میں مداخلت کرتے ہوئے امریکی حکام کو ہندوستان کے امور میں مداخلت کا موقع فراہم کیا ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ مودی کی مہم کے باوجود ٹرمپ کو شکست کا سامنا کرنا پڑا اور اب تو صورتحال ان کے لئے مزید ابتر ہوچکی ہے۔ امریکہ اور دیگر یوروپی ممالک نے این آر سی اور سی اے اے کے خلاف شاہین باغ کے احتجاجیوں کی یہ کہتے ہوئے تائید کی تھی کہ حکومت کو ظلم سے بچنا چاہئے ۔ دنیا بھر میں نریندر مودی کو بی جے پی ’’وشوا گرو‘‘ کے طور پر پروجکٹ کرتی ہے اور یوکرین سے ہندوستانیوں کی واپسی کیلئے جنگ روکنے کا مودی پر سہرا باندھا جاتا ہے۔ مودی واقعی وشوا گرو ہوتے تو شائد امریکہ کو تبصرہ کی ہمت نہ ہوتی۔ ظلم اور ناانصافی کسی بھی ملک کا داخلی معاملہ نہیں ہوسکتا۔ امریکہ اور برطانیہ میں موافق خالصتان سرگرمیوں اور ہندوستانیوں پر مظالم جیسے معاملات میں ہندوستان نے مداخلت کی تھی۔ ہندوستان میں غیر معلنہ ایمرجنسی کی آوازیں اب ماہرین قانون کی جانب سے اٹھائی جارہی ہیں۔ ہندوستان کے 600 نامور وکلاء اور ماہرین قانون نے چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندر چوڑ کو مکتوب روانہ کرتے ہوئے عدلیہ پر اثر اندازہونے حکومت کی کوششوں کی مذمت کی ہے ۔ حالیہ عرصہ میں مرکزی حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ اور دیگر عدالتوں کے فیصلوں میں مداخلت کا حوالہ دیتے ہوئے سپریم کورٹ کے وکلاء نے عدلیہ کی آزادی اور غیر جانبداری کو خطرہ کی نشاندہی کی ہے۔ چیف جسٹس آف انڈیا کو کئی مثالیں پیش کی گئیں جن میں مرکز نے عدلیہ کے وقار کو متاثر کرنے کی کوشش کی ہے ۔ ملک میں مقننہ ، عاملہ اور عدلیہ کو جمہوریت کے تین اہم ستون مانا جاتا ہے ۔ میڈیا کو چوتھے ستون کا درجہ دیا گیا ہے لیکن نریندر مودی نے مقننہ ، عاملہ اور میڈیا پر مکمل کنٹرول حاصل کرلیا ہے ۔ حکومت وقفہ وقفہ سے سپریم کورٹ کی آزادی کو سلب کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ دستوری اداروں پر حکومت کے کنٹرول کا اندازہ الیکشن کمیشن کے حالیہ تقررات سے ہوتا ہے۔ الیکشن کمشنر کی میعاد سے قبل ہی ایک کمشنر نے استعفیٰ دیتے ہوئے مودی حکومت کو اپنی مرضی کے کمشنرس کے تقر ر کی راہ ہموار کردی۔ الیکشن کمیشن کی جانبداری کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اپوزیشن کی شکایات کی سماعت کیلئے کمیشن کے پاس وقت نہیں ہے۔ ہندوستان میں قانون اور عدلیہ کی بالادستی کیلئے سپریم کورٹ آخری امید کی کرن ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ اپنے ریکارڈ کو برقرار رکھتے ہوئے کس حد تک حکومت کے دباؤ کو مسترد کریں گے۔ کجریوال کی گرفتاری پر کسی نے کیا خوب تبصرہ کیا ہے ؎
حاکم مرے خلاف سپاہی مرے خلاف
ملتی نہیں ہے پھر گواہی مرے خلاف