حب الوطنی اور آر ایس ایس

   

رام پنیانی
پچھلے چند برسوں سے لفظ ’’ملک دشمن‘‘ بہت مقبول ہوتا جارہا ہے اور اسے حد سے زیادہ استعمال بھی کیا جارہا ہے۔ اس لفظ کے استعمال کے ذریعہ ان لوگوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے جو آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیموں پر تنقید کرتے ہیں۔ جو لوگ آر ایس ایس اور اس کے ذیلی تنظیموں پر تنقید کرنے سے گریز نہیں کرتے ان پر قوم دشمن ہونے کا لیبل چسپاں کردیا جاتا ہے۔ جیسے جیسے ہندو قوم پرستی کا دعویٰ کرنے والے آر ایس ایس مضبوط و مستحکم ہوتی جارہی ہے وہ حب الوطنی اور مذہب کو جوڑنے کی کوشش کررہی ہے۔ اپنے ملک اپنے قوم کے تئیں وفاداری کے لئے ہندوؤں کی ستائش کرتے ہوئے خاص طور پر مسلمانوں کے خلاف یہ بکواس کی جارہی ہے کہ وہ پاکستان کے تئیں بہت زیادہ وفادار ہیں۔ اس سلسلہ میں آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت نے بڑی مکاری سے ایک بیان دیا (ہندوستان ٹائمس 2 جنوری کی اشاعت) جس میں انہوں نے کہا کہ ہندو اپنے مذہب کے باعث فطرتاً محب وطن ہوتے ہیں۔ انہوں نے اپنے بیان کو مزید معتبر بنانے کی خاطر گاندھی جی کے ایک جملہ میں توڑ مروڑ کرتے ہوئے اس کا بھی حوالہ دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ گاندھی جی کی حب الوطنی دراصل ان کے ہندو مذہب سے آئی ہے۔ گاندھی جی کے حوالہ سے انہوں نے کچھ یوں بتایا ’’تمام ہندوستانی اپنے مادر وطن کی پوجا کرتے ہیں لیکن گاندھی جی کا کہنا تھا کہ حب الوطنی میرے مذہب سے آئی ہے‘‘۔
اسکا مطلب یہ ہوا کہ اگر آپ ایک ہندو ہیں تو آپ خود بہ خود محب وطن ہو جائیں گے۔ ہوسکتا ہے کہ آپ خواب غفلت میں پڑے ہوئے ہندو ہوں اور آپ کو جگانے کی ضرورت ہے لیکن یہ ضرور ہے کہ ایک ہندو کبھی بھی ہندوستان کا مخالف نہیں ہوسکتا۔ موہن بھاگوت نے اپنے بیان میں جن باتوں کا اشارہ دیا ہے وہ آر ایس ایس کے خفیہ ایجنڈہ کا ایک حصہ ہے اور اس کا جائزہ لینے سے پہلے ہمیں یہ سمجھنا چاہئے کہ جب آر ایس ایس کا قیام عمل میں آیا اس کے سب سے بڑے نظریہ ساز ایم ایس گولووالکر نے دو ٹوک انداز میں نازیوں کی ستائش کی اور اس بات کی سفارش کی تھی کہ ہندوستان میں بھی مسلمانوں اور عیسائیوں کے ساتھ اسی خطوط پر سلوک روا رکھا جائے جس طرح یہودیوں کے لئے نازی طریقے استعمال کرتے تھے۔ اب پچھلے چند دہوں سے آر ایس ایس اپنی کئی ایک ذیلی تنظیموں جیسے بی جے پی، اے بی وی پی، ونواسی کلیان آشرم اور ریاست و میڈیا اور تعلیم کے مختلف ونگس میں دراندازی کے ذریعہ مضبوط سے مضبوط ہوتی جارہی ہے۔ آر ایس ایس اسی ہندو قوم پرستی سے متعلق نظریہ دوسروں تک پہنچانے کے لئے انتہائی مکاری کے ساتھ بالراست طور پر الفاظ و زبان کا استعمال کر رہی ہے۔ جیسے کہ گوالکر نے ’’ہم یا ہماری قومیت کی تشویش یہ ہے کہا‘‘ لیکن اس کی پیشکشی کو بڑے خوب انداز میں پیش کیا گیا اور اس انداز میں پیش کیا گیا جس سے معاشرہ میں کئی لوگوں کو الجھن کا سامنا کرنا پڑا۔

جہاں تک گاندھی کا تعلق ہے مذہب ان کے لئے شخصی معاملہ تھا۔ انہوں نے خود کو سنعتانی ہندو قرار دیا لیکن ان کا ہندوازم فراخدلانہ اور غیر شمولیاتی تھا۔ ان کے مذہب کا زیادہ تر تعلق اخلاقی اقدار پر تھا۔ گاندھی جی نے اپنی باطینی طاقت تمام مذاہب سے اخذ کی۔ اس سلسلہ میں وہ کہتے ہیں ’’میں خود کو جس طرح ایک اچھا ہندو تصور کرتا ہوں اسی طرح ایک اچھے مسلمان کی طرح بھی سمجھتا ہوں، میں اپنے آپ کو اسی طرح ایک اچھا عیسائی یا اچھا پارسی بھی سمجھتا ہوں‘‘ (ہریجن 25 مئی 197، صفحہ 164) گاندھی جی ایک اچھے ہندو تھے اور ان میں دوسرے مذاہب کے ماننے والے لوگوں کے لئے احترام کا غیر معمولی جذبہ پایا جاتا تھا۔ یہ جذبہ ان لوگوں سے بالکلیہ طور پر متضاد ہے جو غیر مشمولیاتی تنگ نظری کا شکار ہیں اور آر ایس ایس کے ہندوازم کو اپناتے ہیں۔ یہ اپنے نظریہ کے ذریعہ دیگر مذاہب کے لوگوں کو ڈرانے دھمکانے اور پھر اپنے مقاصد کی تکمیل کی خاطر مسلسل مختلف مسائل کو کھریدتے ہیں۔ جہاں تک گاندھی کے مذہب پر عمل کرنے کا سوال ہے وہ فراخدلانہ اور مشمولیاتی ہوا کرتا تھا۔

اسی کے نتیجہ میں وہ انگریزوں کی حکمرانی کے خلاف مختلف مذاہب کے لوگوں کی جدوجہد کی قیادت کرسکے۔ گاندھی نے حب الوطنی کے لئے مذہب اور قومیت کو کبھی نہیں جوڑا۔ اگر دیکھا جائے تو کسی بھی شخص کی اپنے وطن اور اہل وطن کے لئے محبت کا جذبہ ہی دراصل احساس حب الوطنی کی نمائندگی کرتا ہے اور یہ محبت مذہب میں پیوست نہیں ہے بلکہ قومیت میں پیوست ہے۔ اگر دیکھا جائے تو آر ایس ایس کے ماضی میں جو نظریہ ساز اترے ہیں اور اب جو نظریہ ساز ہیں مثال کے طور پر موہن بھاگوت وغیرہ جان بوجھ کر بڑی مکاری و عیاری کے ساتھ بیانات جاری کرتے ہوئے لوگوں کے ذہنوں میں الجھنیں پیدا کررہے ہیں اور دوسروں پر یہ تاثر دینے کی کوشش کررہے ہیں کہ ہم سے بڑھ کوئی قوم پرست اور ہم سے بڑھ کوئی محب وطن نہیں ہے۔ آر ایس ایس اب ایک سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت یہ ظاہر کرنے کی کوشش کررہی ہے کہ وہ ملک کی عظیم شخصیتوں اور قومی ہیروز سے بہت یکسانیت رکھتی ہے۔ یہ ایسے عظیم سپوت تھے جنہوں نے جدوجہد آزادی میں غیر معمولی حصہ لیتے ہوئے ایک ملک کو ایک متحدہ قوم بنانے کی کوشش کی۔ مثال کے طور پر آپ دیکھ سکتے ہیں آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت نے یہ کہہ کر تعصب و جانبداری کا مطاہرہ کیا کہ ہندو فطری طور پر محب وطن ہوتے ہیں اور ملک دشمن نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والے ہندوستانیوں کی حب الوطنی اور قوم پرستی مشکوک ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس قسم کے بیانات دیتے ہوئے وہ یہ ظاہر کرنے کی کوشش کررہی ہے کہ ہم ہی ہندوؤں کی نمائندگی کرتے ہیں اور ان کے بہتر نمائندے ہیں۔ آر ایس ایس اور اس کی قبیل کی تمام تنظیمیں کسی نہ کسی طرح اس قسم کے بیانات جاری کرتے ہوئے جدید ہندوستان کی تعمیر میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے عظیم و نمایاں کردار کو مکمل طور پر نظرانداز کرتی ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آپ ان لاکھوں مسلمانوں کو کس خانہ میں رکھیں گے جنہوں نے خان عبدالغفار خان اور مولانا ابوالکلام آزاد کی راہ پر چل کر ملک کی خدمت کی۔ ان شخصیتوں نے نہ صرف انگریزوں کی حکمرانی کے خلاف آواز اٹھائی بلکہ تصویر ہند کے تصور کو بھی مسترد کردیا۔ آپ شبلی نعمانی، مولانا حسرت موہانی اور اشفاق اللہ خان جیسی شخصیتوں کو کس خانہ میں رکھیں گے؟ آپ محمد علی جناح کی جانب سے علیحدہ پاکستان کی پیش کردہ قرار داد کی مخالفت کے لئے مسلمانوں کی کانفرنس کا اہتمام کرنے والے اللہ بخش کے نمایاں کردار کے بارے میں کیا کہیں گے۔ مسلمانوں نے جدوجہد آزادی کے دوران کئی ایسی تنظیمیں بنائیں جنہوں نے تحریک آزادی میں دیگر آبنائے وطن کے ساتھ شانہ بہ شانہ اپنا کردار ادا کیا۔ آزاد ہندوستان میں تمام مذاہب کے ماننے والے لوگوں نے ملک کی تعمیر میں پورے جوش و خروش کے ساتھ حصہ لیا۔ صنعت و حرفت، تعلیم، کھیل کود، تہذیب و ثقافت، غرض زندگی کے ہر شعبہ میں تمام مذاہب کے ماننے والوں نے اپنا اپنا کردار ادا کیا تو کیا وہ محب وطن ہندوستانی اور قوم پرست نہیں ہیں؟ موہن بھاگوت کے بیان کا دوسرا رخ دیکھیں تو بھاگوت نے بڑی مکاری کے ساتھ آر ایس ایس کی شاکھاؤں میں تربیت حاصل کرنے والے مہاتما گاندھی کے قاتل ناتھورام گوڑسے کی بھی مدافعت کی ہے۔ ہم ان لوگوں کو کیا نام دیں گے جنہوں نے بابری مسجد کی شہادت کی کارروائی میں حصہ لیا اور اس کی قیادت کی۔ شہادت بابری مسجد کو عدالت عظمیٰ نے ایک جرم قرار دیا۔ اگر موہن بھاگوت حب الوطنی کی بات کرتے ہیں تو پھر گاندھی، کلبرگی، دھابولکر، گوری لنکیش اور گووند پنسارا کے بہیمانہ قتل کی وارداتیں حب الوطنی کے کس زمرہ میں آتی ہیں؟ ان ہندوؤں کو پھر کس زمرہ میں ڈالا جائے گا جو جاسوسی، اسمگلنگ، بلیک مارکٹنگ وغیرہ میں ملوث ہیں۔

دلچسپی کی بات یہ ہے کہ آر ایس ایس گاندھی کے تئیں احترام بظاہر دکھانے کی کوشش کررہی ساتھ ہی اس کے تربیت یافتہ پرچارک اور آر ایس ایس کی ملحقہ تنظیمیں برسر عام ناتھورام گوڑسے کو خراج عقیدت پیش کررہی ہیں۔ اس مرتبہ گاندھی جی کی برسی کے موقع پر جو ٹوئٹس کئے گئے اس میں گوڑسے کی تعریف و ستائش کی گئی اور یہ آر ایس ایس کے ہندوؤں نے ہی کی۔ آر ایس ایس دراصل ایک طرف گاندھی سے محبت کا اظہار کررہی ہے اور دوسری طرف ان کے قاتل کے نظریہ کو فروغ دے رہی ہے۔