حج کے ہر عمل کے پیچھے محبت کی کوئی نہ کوئی ادا چھپی ہوئی ہے

   

پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر القادری
حج کا تجزیہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ اس کے مناسک و ارکان سراسر شعائر اللہ (اللہ کی نشانیاں) کی تعظیم اور محبوبان الہی کی یاد میں عشق و محبت کے والہانہ پن سے عبارت ہیں۔ اللہ کے گھر میں داخل ہوتے ہی، آنکھیں برسات کا منظر پیش کرنے لگتی ہیں اور آنسوؤں کی پہلی جھڑی سے ہی اس جذبہ عشق و مستی کی تسکین محسوس ہوتی ہے، جسے جدائی و مہجوری کے غم نے اور سوا کردیا تھا۔ خانۂ خدا میں قدم رکھتے ہی بندہ دیوانہ وار پتھروں سے بنی ہوئی عمارت کے گرد دوڑنا اور چکر لگانا شروع کردیتا ہے اور حرم کعبہ کے گرد سات چکر (مکمل کرتا ہے)، جسے عرف عام میں ’’طواف‘‘ کہا جاتا ہے۔ وہاں ایک گوشے میں پتھر نصب دیکھتا ہے تو اس کی طرف دیوانہ وار لپکتا ہے اور کثیر مجمع (دھکم پیل) کے باوجود بڑی محنت اور جانفشانی سے اس کے قریب پہنچتا ہے اور بے اختیار اسے چومنے لگتا ہے۔ عقلی دلیل نہیں آتی، اسے بس اتنا پتہ ہے کہ یہ حجر اسود ہے، جسے سرکار دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم نے بوسے دیئے تھے اور اسی نسبت سے اسے بوسہ دینا بہت بڑی سعادت خیال کرتا ہے۔ یہ سب کچھ سوائے جذبہ محبت کی تسکین کے اور کیا ہے؟۔
نویں ذی الحجہ آتی ہے تو وہ بے اختیار بعجلت تمام میدان عرفات کی طرف دوڑنے لگتا ہے۔ عرفات میں ظہر اور عصر کی نمازیں ایک ساتھ ادا کرتا ہے۔ مزدلفہ میں نماز مغرب کے وقت وہ نماز نہیں پڑھتا، بلکہ عشاء کی نماز کے ساتھ ملاکر پڑھتا ہے۔ منٰی پہنچ کر پتھر کے ستونوں کو شیطان سمجھ کر وہ کنکریاں مارتا ہے اور آخر میں دیگر امور سے فارغ ہوکر صفا و مروہ دو پہاڑیوں کے درمیان تیز تیز دوڑتا ہے۔
یہ سب ایسی باتیں ہیں کہ جن کی کوئی توجیہہ عقل کے بس میں نہیں۔ یہ سارے معاملات عشق و جنوں اور وارفتگی و شیفتگی کے آئینہ دار ہیں۔ عقل پوچھتی ہے کہ ان سب معمولات کی حقیقت و ماہیت کیا ہے؟، لیکن اسے کسی سوال کا تسلی بخش جواب نہیں ملتا۔ لیکن یہی سوال جب عشق سے پوچھے جاتے ہیں تو جواب ملتا ہے کہ حج کے ہر عمل کے پیچھے محبت کی کوئی نہ کوئی ادا چھپی ہوئی ہے، جو کسی لمحۂ زماں اورنقطۂ مکاں پر بارگاہ ایزدی کو اتنی پسند آگئی کہ اب اس کا مداومت کے ساتھ جاری و ساری رکھنا، قیامت تک عبادت کا درجہ اختیار کرگیا۔ باری تعالی کو اپنے محبوب بندوں کی نسبتیں اتنی عزیز ہیں کہ ان ہی کے رنگ ڈھنگ اور انداز و اطوار کو اپنالینا عین عبادت قرار پایا۔ حج ان ہی افعال و اعمال سے عبارت ہے، جو مقبولان الہی کی کسی نہ کسی یاد سے وابستہ ہیں۔ان افعال میں سے جو کسی محبوب بندے یا بندی سے منسوب ہیں، ہر فعل کو ادا کرنا ہم پر لازم ہے۔ حالانکہ ان کو یہ افعال کئے ہوئے ہزارہا سال بیت چکے ہیں، لیکن پھر بھی ان کا تصور کرتے ہوئے ہم پر ویسا ہی کرنا ضروری ہے، جیسا کہ ان سے سرزد ہوا۔ ۸؍ ذی الحجہ سے لے ۱۳؍ ذی الحجہ تک تمام افعال و مناسک حج، اللہ تبارک و تعالی کے مقرب بندوں کی یادگاریں ہیں، جن کی تفصیل حسب ذیل ہیں:
۸؍ ذی الحجہ کی صبح طہارت سے فراغت پاکر آپ دو سادہ چادریں زیب تن کرلیتے ہیں، اس لئے کہ یہ وہی لباس ہے، جسے تعمیر کعبہ کے وقت دونوں باپ بیٹے حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام زیب تن کئے ہوئے تھے۔ یہ لباس جو انتہائی سادگی کا مرقع تھا، ذات باری تعالی کو اتنا پسند آیا کہ حجاج کو حکم دیا کہ وہ اپنا مخصوص اور علاقائی فیشن کے مطابق سلا ہوا لباس اُتار پھینکیں اور فقط دو چادریں اوڑھ لیں، جنھیں احرام کا نام دیا گیا ہے۔ اب دنیا کے مختلف گوشوں سے آئے ہوئے لوگ احرام کی چادروں سے جسم ڈھانپ کر سنت ابراہیمی و اسماعیلی کی اتباع میں ایک ہی رنگ میں رنگے ہوئے نظر آتے ہیں۔

ایسے ہی حرم بیت اللہ میں سب ننگے سر حاضر ہوتے ہیں، جب کہ عام حالات میں مساجد میں ننگے سر عبادت کرنا معیوب اور خلاف سنت ہے، تاہم خانہ کعبہ میں جہاں خدائے بزرگ و برتر کا جلال کبریائی اپنے عروج پر کار فرما نظر آتا ہے، ننگا سر عجز و خاکساری اور فروتنی کی علامت ہے، جو رب العزت کی نگاہ رحمت میں بغایت درجہ پسندیدہ ہے۔ اسی طرح اب یہاں سر کے بالوں اور ناخنوں کا بڑھانا بھی سنت ابراہیمی کی پیروی ہے۔ اگرچہ ان باتوں کی توجیہہ عقل و منطق کی رو سے ممکن نہیں، تاہم مقبولان الہی سے منسوب ہونے کی وجہ سے وہ اللہ کی نظر میں اتنی پسندیدہ ہیں کہ انھیں مناسک حج کا درجہ عطا کردیا گیا، جن کے بغیر حج مکمل نہیں ہوسکتا۔حاجی جب حج کرنے جاتے ہیں تو احرام باندھتے ہی نہایت خضوع و خشوع کے عالم میں ایک ساتھ تلبیہ کہنا شروع کردیتے ہیں۔
لبیک اللّٰھم لبیک، لبیک لاشریک لک لبیک،
ان الحمد والنعمۃ لک والملک لاشریک لک۔
’’میں حاضر ہوں یا اللہ میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں تیرا کوئی شریک نہیں میں حاضر ہوں، بے شک تمام تعریفیں اور نعمتیں تیرے لئے ہیں اور ملک بھی، تیرا کوئی شریک نہیں‘‘۔
تلبیہ کے یہ الفاظ ’’لبیک‘‘ (میں حاضر ہوں) دراصل سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی اور اس پکار کا جواب ہے، جو انھوں نے آج سے تقریباً ساڑھے تین ہزار یا چار ہزار سال پہلے جب تعمیر کعبہ کی تکمیل پر اللہ تعالی نے انھیں حکم دیا تھا کہ لوگوں کو میرے گھر کی طرف بلاؤ کی تعمیل میں دی تھی۔ ارشاد باری تعالی ہے ’’اور تم لوگوں میں حج کا بلند آواز سے اعلان کرو، لوگ تمہارے پاس پیدل اور دبلے پتلے جانوروں پر دور دراز سے چلے آئیں گے‘‘۔ (سورہ الحج)
احادیث مبارکہ میں اس دعوت ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں بیان کیا گیا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ابو قبیس نامی پہاڑ پر چڑھ گئے اور وہاں سے تمام اکناف عالم کو بیت اللہ میں حاضر ہونے کے لئے ندا دی کہ ’’آؤ لوگو! اللہ کے گھر کی طرف آؤ، طواف اور حج کے لئے آؤ‘‘۔ روایات میں ہے کہ یہ ندائے ابراہیمی نہ صرف عالم ارضی کے ہر متنفس نے سنی، بلکہ عالم ارواح میں بھی اسے سنا گیا اور اس کے جواب میں جن جن کے نصیب میں حج کی سعادت تھی، ہر ایک نے اس کے جواب میں اپنی اپنی استعداد کے مطابق لبیک کہا۔
اب جب لوگ حج کرنے جاتے ہیں تو قرآن و حدیث کے ارشاد کے مطابق وہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی اس پکار کا جواب دیتے ہیں، جو آج سے ہزاروں سال پہلے ان کی زبان حق ترجمان سے نکلی تھی۔ اس بارے میں بعض روایات اس حقیقت کی نشاندہی کرتی ہیں کہ ’’لبیک اللّٰھم لبیک‘‘ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پکار کا جواب ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جب ابراہیم علیہ السلام بیت اللہ کی تعمیر سے فارغ ہوگئے، اللہ تعالی نے ان کو حج کے لئے منادی کا حکم دیا، تو آپ ایک مینار پر کھڑے ہو گئے اور فرمایا: اے لوگو! بے شک تمہارے پروردگار نے تمہارے لئے گھر تعمیر کردیا ہے، پس تم اس کا حج کرو اور اللہ رب العزت کے پیغام کو قبول کرو‘‘۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’تو مَردوں کی پشتوں اور عورتوں کے رحموں سے لوگوں نے جواب دیا کہ ہم نے آپ کے پیغام کو قبول کیا، ہم نے آپ کے پیغام کو قبول کیا (اور پکارے) اے اللہ! ہم تیری بارگاہ میں حاضر ہیں‘‘۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’تو آج جو کوئی جتنی مرتبہ حج کرتا ہے تو وہ ان ہی میں سے ہوتا ہے، جنھوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پکار پر لبیک کہا‘‘۔