حدیبیہ میںرسول اللہؐ اور قریش کے درمیان سفراء کی آمد و رفت کا سلسلہ شروع ہوا

   

اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا کا تاریخ اسلام اجلاس،ڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی کا خطاب
حیدرآباد ۔یکم؍ڈسمبر( پریس نوٹ) جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دیکھا کہ قریش‘ مسلمانوں کو مکہ میں داخل ہونے سے روکنا چاہتے ہیں تو آپ نے حدیبیہ پہنچ کر قیام فرمایا۔ یہاں پر قریش کی طرف سے سفراء کی آمد و رفت کا سلسلہ شروع ہوا جن میں بدیل، عروہ بن مسعود، مکرز بن حفص اور حلیس بن علقمہ کا نام کتب سیر میں ملتا ہے۔ رسول اللہؐ نے قریش کے طرف سے آنے والوں کو یہی پیام دیا کہ ہم صرف بیت اللہ کے طواف کے لئے آئے ہیں۔ خونریزی یا لڑائی مقصود نہیں۔ رسول اللہؐ نے مسلمانوںکی طرف سے پہلے حضرت خراش بن امیہ ؓ اور پھر بعدمیں حضرت عثمان بن عفانؓ کوقریش کی جانب بھیجا۔ حضرت خراش ؓ کو قریش نے پہلے گرفتار کر لیالیکن ان کے قبیلہ والوں نے انھیں بچا لیا۔ان کے بعد رسول اللہؐ نے حضرت عمرؓ کو بھیجنا چاہا لیکن آپ کی معذرت طلبی پر حضوراکرم ؐ نے حضرت عثمان ابن عفانؓ کوقریش کی جانب بھیجا۔حضرت عثمانؓ اپنے ایک عزیز ابان بن سعید کی پناہ میں مکہ میں داخل ہوئے اور قریش کے سرداروں تک حضور اکرمؐ کا پیام پہنچایا۔قریش نے اس بات پر متفقہ جواب دیاکہ اس سال تو مسلمان مکہ مکرمہ میں داخل نہیں ہو سکتے۔ہاں اگر (حضرت) عثمانؓ چاہیں تو وہ تنہا طواف کر سکتے ہیں۔حضرت عثمانؓ نے ان کی اس پیشکش کوقبول نہیں کیا۔قریش خاموش ہو گئے لیکن حضرت عثمان غنی ؓ کو اپنے پاس روک لیا۔ ڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی ڈائریکٹر آئی ہرک نے آج صبح 9 بجے ’’ایوان تاج العرفاء حمیدآباد‘‘ واقع شرفی چمن ،سبزی منڈی قدیم میں ان حقائق کا اظہار کیا۔وہ اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل (انڈیا) آئی ہرک کے زیر اہتمام منعقدہ ’1383‘ویں تاریخ اسلام اجلاس کے پہلے سیشن میں سیرت طیبہ کے تسلسل میں واقعات صلح حدیبیہ پر اہل علم حضرات اور سامعین کرام کی کثیر تعداد سے شرف تخاطب حاصل کر رہے تھے۔ بعدہٗ 11.30بجے دن جامع مسجد محبوب شاہی مالاکنٹہ روڈ روبرو معظم جاہی مارکٹ میں منعقدہ دوسرے سیشن میں ایک مہاجر ایک انصاری سلسلہ کے تحت صحابی رسول اللہؐ حضرت زبرقان بن بدر ؓ کے احوال شریف بیان کرتے ہوئے بتایا کہفتح مکہ کے بعد ہر طرف سے بارگاہ رسالت پناہیؐ میں سفارتیں اور وفود آنے لگے جو اطاعت کیشی اور قبول اسلام سے مالا مال ہوتے رہے انہی میں سے ایک بنو تمیم کا وفد بھی تھا جس میں قبیلہ کے شاہی خاندان کے افراد تھے ان میں حضرت زبرقان بن بدر بھی شامل تھے اور جنھیں نگاہِ رحمۃ للعلمینؐ نے دولت ایمان سے نواز دیا۔ ڈاکٹر حمید الدین شرفی نے کہا کہ حضرت زبرقانؓ کا اصلی نام حصین تھا۔ وہ امرؤ القیس کے پوتے تھے۔ جدی سلسلہ مناہ بن تمیم سے جا ملتا ہے ان کی کنیت ابو سدرہ تھی۔ وہ تمیمی سعدی تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں بے پناہ حسن ظاہری اور خوبصورتی سے مالا مال کیا تھا۔ اسی لئے وہ ’’زبرقان‘‘ یعنی چاند سے معروف ہوے۔ زمانہ جاہلیت میں بھی سردار تھے اسلام لانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کی عزت و جاہ میں اور زیادتی فرمائی تھی رسول اللہ ؐ نے انھیں خاص انعامات سے بھی نوازا۔ اور انھیں ان کی قوم کے صدقات کا متولی مقرر فرمایا۔ حضرت زبرقانؓ کو حضور انورؐ کی ذات اطہر سے خاص شیفتگی اور محبت تھی اسلام لانے کے بعد سے ان کے حالات میں زبردست تبدیلی آگئی وہ اور زیادہ ہردلعزیز اور محبوب ہوگئے۔ دین پر استقامت، خداترسی، عبادات اور اخلاقی جواہر کے باعث ان کی زندگی مثالی بن گئی۔رحلت شریف کے بعد اپنے قبیلہ کو ارتداد سے روکنے میں ان کے استقلال اور اثر نے بہت کام کیا۔ اسلام پر ثابت قدمی اور بنو تمیم کو اسلام پر قائم رکھنا بلا شبہ ان کا شاندار کارنامہ ہے۔ حضرت زبرقانؓ بڑے حق گو اور راست باز تھے اسی طرح سخاوت، شجاعت اور بلند اخلاق میں بھی بے نظیر تھے۔ انھوں نے طویل عمر پائی۔