حراستی کیمپوں سے بھاگنے کی اگر کوئی کوشش کرتا ہے تو چین کو ”گولی مار کر ہلاک کردیتا“ ہے

,

   

تحویلی مراکز‘ حراستی کیمپوں کی شروعات سال2015سے ہوئی ہے
بیجنگ۔زنچیانگ میں ایغور اقلیتوں پر چین مظالم کا مسخ چہرہ اس وقت پھر ایک مرتبہ منظرعام پر آیا ہے جب ایک ماہرین تعلیمات انڈرین زینس نے چین کی اقلیتی پالیسیوں کی دل دہلادینے والے حقائق کا انکشاف کیاہے۔

زینس کی فائیلس جس میں چین ارونگو کی 2017میں داخلی تقریر جوکہ زنچیانگ میں کمیونسٹ پارٹی کے ایک سابق سکریٹری ہیں کی تقریر بھی شامل ہے سے اس بات کاانکشاف ہوا ہے کہ جس میں انہوں نے گارڈس احکامات دئے تھے کہ حراستی کیمپوں سے اگر کوئی بھاگنے کی کوشش کرتا ہے اس کو گولی مارکر ہلاک کردیں او رعہدیداروں کوہدایت دی کہ علاقے میں ”مذہبی عقیدت رکھنے والے پر قابو پانے کی مشق کریں“۔

مذکورہ فائیلیں ہڑاروں تصویروں اور سرکاری دستاویزات پر مشتمل ہیں جو چین کے زنچیانگ سے ہیں جو ملک میں ایغور اقلیتوں کے ساتھ پرتشددبرتاؤ‘ غیراخلاقی‘ سخت رویہ کی تصدیق کرتی ہے۔

حالانکہ چین نے ملک میں اقلیتوں کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی سے انکار کرتا رہا ہے‘ مذکورہ تصویریں اور داخلی دستاویزات ایک نامعلوم ذرائع نے زینس کو بھیجی ہیں جس نے اس کے برعکس زنچیانگ میں سرکاری ڈیٹابیس کو ہیک کیاتھا۔


چین میں بڑے پیمانے پر ایغوروں کو زبردستی حراست میں رکھا
چین نے ایغوروں کو بڑے پیمانے پر نظر بند کرنے کے لئے مجبور کیاہے اسکے باوجود اس کے اور اس کے دعوؤں کی نظر بندیاں رضاکارانہ نہیں تھیں۔

لیک ہونیوالے ڈیٹا سے چینی حکام کے ان الزامات کی تصدیق ہوتی ہے کہ مبینہ طور پردس لاکھ سے زائد ایغوراور دیگر مسلم اقلیتوں کو علاقے میں حراستی مراکز او رجیلوں کے نٹ ورک میں رکھا گیاہے۔

اس سے قبل اس بات کا بھی الزام لگایاگیاتھا کہ ہزاروں ایغوروں کے ساتھ ساتھ کزکاکی‘ کرگز اور دیگرمذہبی اقلیتوں کو زبردستی کیمپوں میں رکھا گیا ہے تاکہ انہیں کمیونسٹ تعلیم اور تربیت دی جاسکے۔

اس وقت جب ایک سینئر کمیونسٹ عہدیدار بظاہر نوٹ کیا کہ ”زنچیانگ کے ایغوروں میں ایک تھائی ’شدید طور سے مذہبی شدت پسند ی سے آلود ہ ہیں“ اور انہیں ناقابل تسخیر قوت کے ذریعہ ان میں اصلاح اورتعلیم کی ضرورت ہے“ تب تحویلی مراکز‘ حراستی کیمپوں کی شروعات سال2015سے ہوئی ہے۔