حسن سلوک کے بنیادی طریقے

   

ابوزہیر سید زبیر ہاشمی نظامی
زیر نظر تحریر میں جن اخلاقی اُصولوں کی تعلیم دی گئی ہے اور جن نکتوں کو دُہرایا گیا ہے، اگر ان کو بغور پڑھیں تو یہ دراصل درج ذیل احادیث کی شکل میں اسلامی طرز معاشرت اور طرز اخلاق کی وضاحت ہے۔ یہ یورپ کی تعلیم نہیں، بلکہ ان فراموش کردہ اسلامی تعلیمات کی وضاحت ہیں، جن اسلامی تعلیمات کو ہم نے اپنی مطالعاتی زندگی کا حصہ نہیں بنایا۔
اسلامی تعلیمات میں انسان کی اپنی زندگی کے احتساب پر زور دیا گیا ہے۔ انسان کا اپنا احتساب بھی صحیح زندگی گزارنے کی طرف ممد و معاون ہو سکتا ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے ایسے واقعات ملتے ہیں کہ وہ سونے سے پہلے اپنا احتساب کرکے سوتے تھے، گزرے ہوئے دنوں میں اپنے اعمال کو دیکھتے تھے اور سب انسانوں کو (جن کے ساتھ دن میں وقت گزرتا تھا) معاف کرکے سوتے تھے، چاہے قصور اپنا ہو یا اُن کا۔
مسلمان ہر عمل میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی پیروی کرتے ہیں، غصے میں کسی کو غلطی کرتا دیکھ کر آپﷺ نے کیا عمل اختیار فرمایا؟ اس عمل کو اختیار کرنے سے نہ صرف سنت پر عمل ہوگا، بلکہ بہت سی مصیبتوں سے بچیں گے۔ دشمنوں کو معاف کرنا، نکتہ چینی نہ کرنا، ہر انسان سے محبت کرنا اور اس کو اہمیت دینا چاہئے۔ ’’ہر صحابی رسول ﷺ خود کو ایسا سمجھتے تھے کہ حضور اکرم ﷺ تمام صحابۂ کرام میں سب سے زیادہ مجھ سے محبت فرماتے ہیں‘‘۔
نکتہ چینی اور عیب جوئی سے صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم ہمیشہ پرہیز فرماتے۔ نکتہ چینی اور عیب جوئی سے دل ٹوٹتے ہیں، اگر اس جیسی صورت حال سے دو چار ہوں تو ہم حضور پاک ﷺ اور صحابۂ کرام کے طرز عمل کو دیکھیں۔ جس وقت حضرت عکرمہ رضی اللہ تعالی عنہ مسلمان ہونے کے لئے تشریف لارہے تھے اور آپﷺ کو اس کا علم ہو چکا تھا، تو آپﷺ نے اپنے صحابہ سے فرمایا، جس کا مفہوم یہ ہے: ’’اُن کے سامنے اُن کے باپ کی برائی نہ کرنا، اُن کا دل ٹوٹ نہ جائے‘‘۔ یہ کامل اور مکمل تعلیم کا نتیجہ تھا کہ بکھرے ہوئے اور ٹوٹے ہوئے دل جُڑ گئے اور ایسا صرف نکتہ چینی نہ کرنے سے ممکن ہوا۔ کسی کو اپنے سے کم سمجھنا یا کسی کے عیب دیکھنا، ان سب سے منع فرمایا گیا ہے۔ کسی کو اپنے سے کم سمجھنے سے اس کی محبت دل سے نکل جاتی ہے۔ عیب دیکھنا بھی اسی زمرے میں آتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا ’’(بُرے) گمان سے بچو، کیونکہ گمان سب باتوں سے زیادہ جھوٹی بات ہے‘‘۔ پھر فرمایا کہ ’’کسی کی پوشیدہ باتوں کا پتہ نہ لگاؤ اور نہ عیب تلاش کرو، ایک دوسرے کو لڑائی کے لئے نہ بھڑکاؤ، آپس میں حسد نہ کرو، بغض نہ رکھو، تعلقات ختم نہ کرو اور سب اللہ کے بندے ہوکر بھائی بھائی بن جاؤ‘‘۔ (بخاری، مسلم، مشکوۃ)