حضرت بابا فریدالدین گنج شکر ؒ

   

سعدیہ محمد
صدیاں بیت جاتی ہیں ،سال کے بعد سال گزرتے ہیں۔ وقت ہزاروں کروٹیں لیتا ہے تب کہیں جاکر کسی دیدہ ور کی صورت نظر آتی ہے۔ جس طرح نظام شمسی ہزار بار گردش کرچکا ہوتا ہے تب کہیں جاکر کامل انسان، عزم اور روحانی طور پر بلند قامت فقیر دنیا میں امن و شانتی، انسانیت میں محبت پیداکرنے اور گمراہوں کو راہ نجات دکھانے کیلئے آتا ہے۔ انہیں برگزیدہ ہستیوں میں ایک پاک شخصیت حضرت بابا فریدالدین گنج شکرؒ کی بھی ہے۔اس دھرتی پر حضرت بابا فریدؒ جیسے پھول روز نہیں مہکتے۔ حضرت بابا فرید صوفی ازم کے آسمان پر چودھویں کے چاند تھے۔
فرید عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں ’’یکتا‘‘ ، ’’بے مثال‘‘ اور ’’لاثانی‘‘۔ بابا فریدؒ کا شمار چھٹی صدی ہجری کے کبار صوفیاء میں ہوتا ہے آپؒ کی پیدائش ۵۸۴ھ؁ بمطابق ۱۱۷۳ ؁ء میں کھتوال میں ہوئی۔ آپؒ کا نسب حضرت عمر فاروقؓ سے ملتا ہے۔ آپؒ کابل کے بادشاہ فرخ شاہ کے خاندان سے تھے۔ آپؒ کے والد کا نام جمال الدین سلیمان جبکہ والدہ قرسم بی بی تھیں جو نہایت عابدہ و زاہدہ تھیں۔ آپؒ کے والد آپؒ کے بچپن میں ہی انتقال کرگئے تھے۔ والدہ محترمہ نے اس بچے کی تربیت کی اور اسے گوہر کامل بنادیا۔
ابتدائی تعلیم والدہ ماجدہ سے حاصل کی۔ گیارہ برس کی عمر میں قرآن مجید حفظ کرلیا۔اسی زمانے میں آپؒ کی ذہانت اور نیکی کا چرچا پورے شہر میں ہوگیا۔ اپنے دور کے مروجہ ظاہری علوم کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد ملتان کا قصد کیا۔ مولانا منہاج الدین ترمذی سے فقہ کی معروف کتاب ’نافع‘ پڑھی اور علوم دینیہ حاصل کرنے کے بعد قندھار تشریف لے گئے وہاں پانچ برس قیام فرمایا۔ تفسیر، حدیث، فقہ، صرف و نحو اور منطق میں اعلیٰ قابلیت حاصل کی۔ بابا فریدؒ ریاضت، عبادت، معاہدہ،فقر اور ترک وتجدید میں بے مثال تھے۔ اپنے مرشد کے انتقال کے بعد چشتیہ سلسلے کے سربراہ بنے اور اجودھن میں رہائش پذیر ہوئے یہاں پر لوگ ان کے حلقہ ارادت میں داخل ہوئے۔ وہاں پر آپؒ نے ایک جماعت خانے کی بنیاد رکھی جہاں پر ہر وقت بہت سے دانشور اور صوفی موجود رہتے تھے جنھیں عربی، فارسی، پنجابی اور ملتانی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔بابا فرید کے کلام میں ایسی تاثیر تھی کہ گائوں کے گائوں آپؒ کے مرید ہوگئے تھے۔
بابا فرید کو شیرینی بہت پسند تھی اور شکر آپؒ کی پسندیدہ تھی مشہور ہے کہ ایک بار شکر کے بیوپاری گدھوں پر شکر کی بوریاں لادے ہوئے آپؒ کے سامنے سے گزر رہے تھے۔ آپؒ نے ان سے شکر کی قلیل مقدار خریدنی چاہی تو انہوں نے بہانہ بناکر کہا کہ شکر نہیں نمک ہے۔ آپؒ نے مسکرا کر فرمایا ٹھیک ہے نمک ہی ہوگا۔ وہ سوداگر جب منزل مقصود پر پہنچے اور بورے کھولے تو دیکھا سب شکر نمک میں تبدیل ہوچکی تھی۔ پشیمان ہوکر بابا جی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دعا کے طالب ہوئے۔ آپؒ نے کمال شفقت سے فرمایا شکر ہوجائیگی۔ چنانچہ وہ نمک شکر ہوگئی۔کہا جاتا ہے کہ اس دن سے آپؒ گنج شکر کے لقب سے مشہور ہوگئے۔کہا جاتا ہے کہ جب بابافریدؒ نے چلۂ معکوس کاٹا اسی دوران ایک کوا آیا اور آپ کے جسم پر چونچیں مارنے لگا آپ نے منع نہیں کیا لیکن جب اس نے آپ کی آنکھ پر چونچ ماری تو آپ نے فرمایا:اے کوے تو نے میرے بدن کا سارا گوشت نوچ کر کھا لیا ہے میں تم سے منت کرتا ہوں کہ یہ میری دو آنکھیں نہ کھانا کیونکہ مجھے اپنے پیا کو دیکھنے کی آس ہے۔ان کی شاعری میں مواد، لفظ، معنی، زبان اور اسلوب کی وہ گہرائی پائی جاتی ہے جس نے ہر شخص کو متاثر کیا۔وہ ایک چشمہ خیرو برکت تھے۔ آپ کی زندگی کا اولین مقصد اسلام کی تبلیغ تھا جس میں شب و روز مصروف رہتے تھے۔دیگر چشتی مفکرین کی طرح بابا فریدؒ بھی موسیقی کے شائق تھے۔ وہ فرماتے تھے کہ رحمت باری کا نزول تین مواقع پر ضرور ہوتا ہے۔ سماع کے موقع پر، درویشوں کے احوال بیان کرنے کے موقع پراور عاشقوں کے انوار تجلی کے عالم میں غرق ہوجانے کے موقع پر۔
بابا فریدؒ نے ۹۲برس کی عمر میں ۵؍ محرم الحرام مطابق ۱۲۶۵؁ء وصال فرمایا اور اجودھن میں ہی آسودہ خاک ہوئے جو آج کل پاک پتن کہلاتا ہے ، ان کا مزار شہنشاہ محمد بن تغلق نے تعمیر کروایا جو آپؒ کے مرید تھے۔ بابا فریدؒ کامزار زیارت گاہِ خاص و عام ہے۔