حضرت شاہ خاموش رحمۃ اللہ علیہ

   

حافظ سید شاہ مدثر حسینی
وارثین انبیاء کرام میں دکن کی ایک مایا ناز ومعروف شخصیت جن کے علمی وروحانی فیضان سے سارا عالم فیض یاب ہوا ہے اور ہورہا ہے، اس ذات گرامی کا اسم گرامی قطب الاقطاب حضرت قبلہ پیر دستگیر سید شاہ معین الدین حسینی المعروف شاہ خاموش صاحب قدس سرہ العزیز ہے، جنہوںنے اپنی تمام تر زندگی علم ظاہر وعلم باطن کی اشاعت کیلئے وقف کردی ۔ حضرت شاہ خاموش رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت باسعادت ۱۲۰۴؁ھ شہر محمد آباد بیدر شریف میں ہوئی۔آپ کے والد بزرگوار سلسلہ عالیہ چشتیہ کے پیراور صاحب طریق مشائخ سے تھے ۔ حضرت کے جد اعلی حضرت شاہ راجو قتال حسینی صاحب قدس سرہ جن کا مزار مبارک خلد آباد شریف میں واقع ہے۔حضرت شاہ خاموش صاحبؒ نے عالم تجردی میں عمر گزاردی ۔ ہمہ تن آپؒ کے چہرہ مبارک پر چادر کا نقاب رہتا تھاآپؒ آنکھ پھیر کر کسی کو نہ دیکھتے، کسی کی آنکھ میں آنکھ نہ ملاتے، اس زمانے میں آپ ؒ بالکل خاموشی اختیار فرمائی تھی۔شاہان آصفیہ نے حضرت شاہ خاموش صاحب قبلہ ؒ کی خدمت کرنی چاہی ‘نذرانے پیش کئے جاگیریں دینی چاہیں ‘آپ ؒ نے زرودولت اور تحفے وتحائف کو مسترد کرتے ہوئے تاریخی مکہ مسجد کے عقب میں ایک کچے مکان کو ترجیح دی جو آج خانقاہ مکہ مسجد کے نام سے موسوم ہے،جہاںتقریبا ایک صدی سے رشد وہدایت کا پیام جاری وساری ہے،حیدرآباد دکن کو جہاں کئی اعزازات حاصل ہیں ‘قطب شاہی اور آصفجاہی خاندانوں نے تقریبا چار صدیوں تک اسلام اور مسلم رواداری وتہذیب کے انمٹ نقوش پیدا کئے وہیں ان بزگان دین کی خدمات کو بھی مساوی اہمیت حاصل ہے ، حیدرآباد دکن میں جن اولیاء کرام نے روحانی حکمرانی کے نقوش چھوڑے ہیں ان میں حضرات یوسفین شریفین ؒاور حضرت راجو قتال حسینی ؒ قطب شاہی دور میں روحانیت کے چراغ جلائے ہیں ،وہیں آصفجاہی دور میں حضرت شاہ خاموش صاحب قبلہؒ نے بزرگان دین کے طریق کو آگے بڑ ھا یا۔ حضرت شاہ خاموش رحمۃ اللہ علیہ کا پیر کے دن ۴؍ ذیقعدہ ۲۸۸ ۱ ؁ھ کو وصال ہوا۔ مکہ مسجد میں کثیر مجموعے نے آپؒ کی نمازجنازہ میں شرکت کی ۔ حضرت شاہ خاموش صاحب قبلہ ؒ ایک ایسی بزرگ اور قابل احترام شخصیت ہیں جنہوں نے دین وایمان کے استحکام اور خانقا ہی نظام کے فروغ میں اہم حصہ ادا کیا۔ حـضرت شاہ خاموش صاحب قبلہؒ کو شاعری سے بھی بڑا شغف تھا یہ بھی عشق رسول اور معارف حقائق کے اظہار کیلئے وقف تھا آپ کے کلام میں روحانی اور تصوف کے تعلیمات کا ذکر ملتا ہے۔
( اخذ: تاریخ محبوب ذی المنن، دیوان شاہ خاموشؒ )