حضرت شاہ محمد قاسم المعروف حضرت شیخ جی حالی قبلہؒ ابوالعلائی

   

سید خلیل احمد ہاشمی
دکن میں سلسلہ ابوالعلائیہ کے بانی حضرت شاہ محمد قاسم عرف شیخ جی حالی قبلہ حیدرآباد کے نامور بزرگ گذرے ہیں ۔ حضرت کا نام نامی محمد قاسم عرف شیخ جی اور لقب حالی ہے ۔سنہ ولادت ۱۱۷۵ھ؁ ہے آپ کے والدِ ماجد کا اسم گرامی حضرت غلام محمد ؒ حضرت خواجہ عبداللہ انصاری کی اولاد میں تھے۔ بچھون (راجستھان) میں حضرت شیخ جی حالی ؒ کی ولادت ہوئی ، دربارِ شہنشائی میں آپ کے والد بزرگوار کی قدرومنزلت تھی چنانچہ سرکار سے منصب ماہانہ جاری ہوئی ۔ ۱۱۸۹ھ میں جبکہ شاہ محمد قاسم (شیخ جی حالی) کی عمر شریف چودہ (۱۴) برس تھی تو آپ کے والد صاحب نے اپنے پیرومرشد حضرت شاہ عزت اللہ ابوالعلائی ؒ عرف میاں صاحب قبلہ ؒ کی خدمت میں عرض کیا کہ اس بندہ زادہ کو بھی اپنی غلامی میں قبول فرمائے توحضرت میاں صاحب نے شاہ محمد قاسم کو داخلہ سلسلہ فرماکر توجہات اور تعلیم معنوی سے سرفراز فرمایا اور مدارجِ سلوک طے کرواتے رہے ۔ حضرت شیخ جی حالی قبلہ جنگل و صحرا میں گشت فرماتے ہوئے ذکر وشغل میں مصروف رہتے تھے اور مجاہدہ میں ایک مُدت گذار دی اور اپنے پیر کی خصوصی تربیت کی وجہ سے بہت جلد کمال کو پہنچے ۔ حضرت شیخ جی حالی ؒ قصبہ سورج گڑھ میں مقیم تھے کہ بعد نمازِعشاء اچانک آپ کو اپنے پیرومرشد سے ملنے کا اشتیاق ہوا اور بگڑ جانے کی جانب روانہ ہوگئے (۱۸) کوس تقریباً ۳۰کیلو میٹر کا فاصلہ آپ نے رات بھر میں طے فرمایا اور قبل نماز فجر پیرو مرشد کی خانقانہ میں پہنچ گئے جب سب حاضرین خانقاہِ نماز فجر باجماعت ادا کرکے اپنی اپنی ضرورت سے خانقاہ سے نکل کر آبای کی جانب روانہ ہوگئے تو اس وقت خانقاہ میں سوائے حضرت شیخ جی حالی کے کوئی اور موجو د نہیں تھا ۔ایسے میں حضرت میاں صاحب قبلہ کے وصال کا وقت آپہنچا تو آپ نے آواز دی کہ باہر کوئی حاضر ہے تو شیخ جی حالی ؒ نے جواب دیا کہ غلام قاسم حاضر ہے ۔ پھر کچھ دیر بعد وہی آواز آئی کہ باہر کوئی حاضر ہے اس دفعہ بھی باہر سوائے شیخ جی ؒ کے کوئی نہ تھا آپ نے عرض کیا کہ غلام قاسم حاضر ہے ۔ تیسری مرتبہ بھی ایسا ہی ہوا تب آپ کے پیرومرشد حضرت میاں صاحب قبلہ ؒنے آپ کو اندر بلوا کر اپنے سینے سے لگاکر اس نعمت باطنی کی امانت آپ کے حوالے فرمائی جو حضرت سیدنا ابوالعلااکبر آبای قدس سرہ سے آپ تک پہنچی تھی ۔حضرت میاں صاحب قبلہ ؒ نے اپنے مرید شیخ جی حالی کو نعمت باطنی سے سرفراز فرماکر فرمایا کہ ہماری فاتحہ سیوم کے بعد تم حیدرآباد جاکر ابوالعلائی فیض سے طالبانِ حق کو سیراب کرنا، چنانچہ آپ ۱۲۰۹؁ھ میں حیدرآباد کے لئے روانہ وہوکر آصف جاہ ثانی کے دور میں حیدرآباد دکن تشریف لائے ۔ اور منڈی میر عالم کے قریب کمان ایلچی بیگ میں قیام فرمایا اور کچھ عرصہ بعد نواب تاڑبن سلطان نوز الملک کے پاس سپاہیوں میں ملازم ہوگئے ۔ حضرت کا وصال ۲۹؍ ربیع الثانی ۱۳۲۸؁ھ ۳۱؍ جنوری ۱۸۲۳؁ء بعمر۶۳ سال ہوا اور کھلی زمین پرآپ کا مزارِ مبارک تعمیر کیا گیا ۔
حضرت کا مزارِ مبارک پر۱۸۷۲ ء میں آپ کے جانشینِ اول حضرت سید عمر علی شاہ صاحب قبلہ قدس سرہ‘ سجادہ نشین ومتولی درگاہ شریف نے ایک بہت ہی خوبصورت سنگ مرمر کی جالی مکرانہ راجستھان سے تیار کرواکر حیدرآباد لاکر نصب کروایا ، جو آج بھی اپنی مثال آپ ہے ۔