حضرت شیخ الحدیث علیہ الرحمہ کا پیغام طلبائے علوم اسلامی کے نام

   

کارسازِ مابۂ فکر کارِ ماست
فکرِ ما دَرْ کارِ ما آزارِ ماست
راۂ دارِ مابۂ فکر راہِ ماست
فکرِ ما دَرْ راہِ ما آزارِ ماست

ہمارے طالبعلمی کا دور ایک سنہرا دور تھا ، جامعہ نظامیہ کی نور انی فضاء ، پیار و محبت اور باہمی احترام سے معطر تھی ۔ حضرت علامہ سید شاہ طاہر رضوی القادری رحمۃ اللہ علیہ سابقہ شیخ التفسیر جامعہ نظامیہ واقعی صدرالشیوخ تھے بالخصوص فن تفسیر ، ادب اور علم العروض ( فن شعر و شاعری) میں مرجع کا درجہ رکھتے تھے ۔ جب کوئی علمی محفل جامعہ نظامیہ میں سجتی اور شیوخِ جامعہ نظامیہ اپنے علمی رعب و جلال کے ساتھ رونقِ بزم ہوتے تو ان نورانی شکلوں کے دیدار سے چشمِ بصیرت میں ایک نور پیدا ہوتا اور قلب مضطرب میں سروروانبساط کی کیفیت پیدا ہوتی ۔ یہی پاکیزہ مناظر ہماری زندگی کے سب سے بہترین لمحات تھے ۔ ان کے بارعب چہرے ، شملہ کی خاص ھیئت ، باوقار نشست ، ادب و جلال سے پرنور نگاہیں ، ایک دوسرے کا باہمی احترام ، محفل پر چھائی ہوئی عام خاموشی ، خطاب کے دوران ان کی زبانِ فیض ترجمان سے جاری ہونے والے کلمات ، قلب و دماغ پر حیرت انگیز نقوش چھوڑ گئے ۔ یکے بعد دیگر شیوخ گرامی کا پردہ فرما جانا اُمت اسلامیہ کے لئے بطور خاص طلبائے علوم اسلامی کیلئے عظیم سانحہ ہے بلکہ ان کے لئے قیامت صغریٰ سے کم نہیں کیونکہ ہم نے اسلاام کو انہی بزرگوں سے سمجھا ہے اور اخلاق نبوت کو انہی پاکیزہ ہستیوں میں دیکھا ہے۔ حضرت سیدنا عبداﷲ بن عمرو بن العاص رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم نے فرمایا : بے شک اﷲ تعالیٰ علم کو بندوں سے ایک دم نہیں کھینچ لیتا بلکہ علماء کی موت سے علم کو اُٹھالیا جاتا ہے یہاں تک کہ کوئی (حقیقی) عالم باقی نہیں رہتا تو لوگ جاھل کو اپنا پیشوا بنالیتے ہیں پس ان سے سُوال کیا جاتا ہے تو وہ بغیر علم کے فتوی دیتے ہیں خود گمراہ ہوئے دوسروں کو گمراہ کئے ۔ (بخاری و مسلم )
عمدۃ المحدثین حضرت علامہ محمد خواجہ شریف رحمہ اللہ علیہ شیخ الحدیث جامعہ نظامیہ نہ صرف حضرت شیخ الاسلام بانی جامعہ نظامیہ قدس سرہ العزیز کے مسلک اور مشرب پر تھے بلکہ جامعہ نظامیہ کے منشا تاسیس کے جانثار محافظ اور حضرت شیخ الاسلام علیہ الرحمہ کے کمالات کے مظہر اور حقیقی وارث تھے ۔ جامعہ نظامیہ میں علمی نشاط اور تعلیمی سرگرمیوں کے روحِ رواں رہے، مالیہ کے استحکام اور چرم قربانی کے انتظام میں ممکنہ خدمات پیش کیں۔ عالم عرب میں جامعہ نظامیہ کے تعارف میں نمایاں کردار ادا کیا ۔ جامعہ نظامیہ کی تاریخ میں ایسی ہمہ جہت شخصیت کی نظیر نہیں ملتی ۔

خدا رحمت کُنَدْ این عاشقانِ پاک طینت را ۔
حضرت شیخ الحدیث علیہ الرحمہ عموماً ’’ثلۃ من الاولین و قلیل من الآخرین‘‘ سے استدلال کرتے اور فرماتے کہ کوئی زمانہ اہل اﷲ اور باکمال اہل علم سے خالی نہیں رہتا ۔ سابقہ زمانوں میں کثرت سے انکا وجود تھا تو آج کے دور میں بھی ان کا وجود ہے گرچہ ان کی تعداد کم ہو اور بلاشبہ حضرت شیخ الحدیث علیہ الرحمہ اسی آیت کے بمصداق متاخرین علماء میں متقدمین علمائِ اعلام کی شان و کمالات کے پیکر گزرے ہیں۔ اگر کسی آیت قرآنی میں حضرت شیخ الحدیث علیہ الرحمہ کی زندگی کا خلاصہ اور آپ کے امتیازی وصفِ خاص کو جاننا چاہیں تو سورۃ الانعام کی آیت نمبر (۱۶۲) ہماری رہنمائی کرتی ہے : ’’آپ فرمادیجئے ! یقینا میری نماز ، میری قربانیاں اور میری زندگی اور میری موت سب اﷲ رب العلمین کے لئے ہیں ‘‘۔

اس دور پرفتن میں اخلاص جیسی نعمت عظمیٰ کمیاب بلکہ عنقاء ہے نیز حضرت شیخ الحدیث علیہ الرحمہ طلباء کو اخلاص اختیار کرنے اور اﷲ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے جدوجہد کرنے کی ترغیب دیتے اور فرماتے جو دکھاوئے کے لئے کرتا ہے اﷲ تعالیٰ دنیا میں ظاہر کردیتا ہے کہ وہ ریاکار ہے ۔ اسی اخلاص اور للہیت کا اثر تھا کہ آپ میں غایت درجہ کی سادگی تھی اور کسی معاملہ میں تکلف اور تصنع پسندِ خاطر نہ تھا اور ’’وما انا من المتکلفین ‘‘ کے عملی نمونہ تھے ۔ آپؒ نے متوکلانہ اور پاکیزہ زندگی بسر کی ۔ توکل سے متعلق اپنے والد ماجد کی گرانقدر نصیحت کا بار بار ذکر فرماتے کہ ایک مرتبہ والد ماجد نے رات کے وقت ندی کے کنارے بٹھاکر نصیحت کی تھی اور فرمایا تھا ۔ توکل کارخانہ کا خدا خود خوان ساماں ہے اور فرماتے کہ افکرِ ما در کارِما آزارِ ما ، کارسازِ ما در فکرِ کارِ ما ۔
اﷲ سبحانہ تعالیٰ نے آپؒ کو عقل سعاد اور عقل معاش سے سرفراز فرمایا تھا لیکن آپؒ نے عقل معاش کو کبھی استعمال نہیں کیا اور نہ اس کی طرف توجہہ دی بلکہ توکل ، زہد اور قناعت کی زندگی بسر کی ۔ کثیرالعیال ہونے کے باوجود لیل آمدنی پر قناعت کیا اور اپنی تمام تر توانائیاں اعلاء کلمۃ الاسلام کی خاطر افراد کو تیار کرنے میں صرف کردی۔ کبھی آپ کو حصولِ معاش کے لئے جدوجہد کرتا ہو نہیں دیکھا گیا اور نہ ہی اس بارے میں آپؒ متفکر یا پریشان نظر آئے ۔ جب اس خاکسار نے سوال کیا کہ اہل خانہ نے کبھی وسیع گھر کی خواہش ظاہر نہیں کی تو آپؒ نے فرمایا کبھی بھی اس کی طرف توجہہ نہیں ہوئی۔

آپؒ ہمیشہ طلباء کو تقویٰ اختیار کرنے کی تلقین کرتے اور فرماتے ’’تم تقویٰ اختیار کرو اور اﷲ تعالیٰ تم کو علم عطا فرمائیگا‘‘ (سورۃ البقرہ :۲۸۲) اور فرماتے کہ علم کی برکتوں اور فیضیابی کے لئے تقوی کا حصول ناگزیر ہے اور تقویٰ کے بغیر علم کی طلب گویا صرف الفاظ و حروف اور لکھیرو ںکو یاد کرنا ہے ۔ آپ متحرک ، فعال ، چاق و چوبند، تحقیقی صلاحیت کے حامل طلباء کو پسند فرماتے ، طلباء میں انتظامی صلاحیت دیکھتے تو خوش ہوتے اور ہمت افزائی کرتے ۔ درس کے پہلے دن آپؒ نے فرمایا تھا جو طالب علم درسگاہ میں سوال نہ کرے اس کو جنگل بھجادیا جائے اور جو مرید خانقاہ میں سوال کرے اس کو بھی جنگل کو بھیج دیا جائے ۔

حضرت شیخ الحدیث علیہ الرحمہ کو فکرسازی اور ذہن سازی پر غیرمعمولی ملکہ حاصل تھا ، وہ غیرشعوری طورپر طلباء کی شخصیت سازی کا ہنر جانتے تھے اور یہ ایک حقیقت ہے کہ کوئی طالبعلم فکر صحیح اور ضبط اوقات کے بغیر کامیابی کے منازل کو طئے نہیں کرسکتا اس لئے آپؒ طلباء کی ذہن سازی اور ضبط اوقات پر غیرمعمولی توجہہ دیتے ۔ مندرجہ ذیل حدیث سے ترغیب دیتے : حضرت ابوھریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے : نبی اکرم ﷺ نے فرمایا واقعی دین آسان ہے ، دین میں کوئی ہرگز شدت اختیار نہ کرے اور جو شدت اختیار کریگا تو شدت اس پر غالب آجائیگی پس تم درستگی اور صواب کو پاؤ ، باہم قریب ہوجاؤ ( ایک دوسرے کی مدد کرو ) خوشخبری دیا کرو اور (سفر میں ) صبح کے وقت ، شام کے وقت اور سحر کے وقت سے فائدہ اُٹھایا کرو ۔ اس حدیث شریف میں دین اسلام کی حقیقت کو بتایا گیا ہے کہ وہ آسان ہے ، اسم میں تنگی یا کوئی حرج نہیں ، افراط و تفریط ، شدت اور غلو کو ترک کرنے اور میانہ روی کواختیار کرنے کی تلقین ہے نیز تعلیم ہو یا سلوک یا کوئی سفر ہو صبح سویرے شروع کرنے اور اوقات کار کو تقسیم کرکے مسلسل محنت کرنے کی ترغیب ہے ۔ حضرت شیخ الحدیث ؒ عربی زبان میں گفتگو کرنے والے طلباء کو بیحد پسند فرماتے نحو صرف کے قواعد ، فن بلاغت اور علم العروض کے علاوہ جدید ادب پر قدرت پیدا کرنے کی ترغیب دیتے ، تادم زیست عربی زبان کے ماحول کو پیدا کرنے کے لئے جدوجہد کی ، مختلف مذاکرے اور عربی مشاعروں کی داغ بیل ڈالی ۔ علمی وقار سے تقریر کرنے کی نصیحت کرتے اور حضرت مولانا مفتی خلیل احمد صاحب مدظلہ العالی شیخ الجامعہ جامعہ نظامیہ کے اسلوب خطابت کو بہترین اسلوب قرار دیتے ۔ اس خاکسار کو شعلہ بیانی سے منع فرمایا اور وجہہ بیان کی کہ اس سے سینہ پر بار پڑتا ہے ۔ طویل عرصے تک ایسے اسلوب خطابت کو جاری نہیں رکھا جاسکتا ۔ ادب کو دینیات میں کمال پیدا کرنیکا موثر ذریعہ سمجھتے لیکن دینیات کے بجائے صرف ادبیات میں مہارت کو اہمیت نہیں دیتے۔ عربی زبان و ادب میں خدمات کی بناء ایک ادیب کو Man of the Year کا ٹائٹل دیا گیا اور اس کی اطلاع اخبار میں شائع ہوئی تو خاکسار کو ایسے طریقے پر چلنے سے منع فرمایا ۔ جامعہ نظامیہ میں میرا تقرر بحیثیت استاذ ہوا تو دو نصیحتیں کیں (۱) نظامیہ میں گروپ نہیں بنانا ، (۲) قانوی گرفت میں نہیں آنا۔
حضرت شیخ الحدیث علیہ الرحمہ کی زندگی کا ایک روشن پہلو یہ بھی ہے کہ آپؒ کا کسی سے کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیں تھا ۔ خصومت اور نزاعات سے آپؒ کی زندگی پاک تھی ۔ ایک موقعہ پر آپؒ نے ارشاد فرمایا : میں تمکو وہ نصیحت کرتا ہوں جو حضور پاک ﷺ نے حضرت انس ؓ کو تھی فرمایا تھا ۔ ’’اے میرے پیارے بیٹے اگر تم کرسکتے ہو تو صبح ایسی کرو کہ تمہارے دل میں کسی سے متعلق کچھ نہ رہے اور شام ایسی کرو کہ تمہارے دل میں کسی سے متعلق کچھ نہ رہے اور یہی میرا طریقہ ہے اور یہی انبیاء کا طریقہ ہے ‘‘۔
وصلی اﷲ تعالیٰ علی خیر خلقہ سیدنا محمد و علی آلہٖ و صحبہ اجمعین ۔