حضرت عبدالحق رحمۃ اللہ علیہ

   

ابوزہیر سید زبیر ہاشمی نظامی (قدیم طالب علم دارالعلوم عربیہ)
اللہ رب العزت کا بڑا کرم، نبی کریم صلی اﷲعلیہ وآلہٖ وسلم کا صدقہ اور کل اولیاء عظام کا فیضان ہے کہ ہمیں اسلام اور ایمان کی دولت سے مالا مال کیا۔ یادرکھیں کہ : اسلام فطرتِ دین کا نام ہے، اسلام قربِ الٰہی میں سرشار رہنے کا نام ہے، اسلام راز الٰہی پانے کا نام ہے، اسلام دیدار الٰہی کا متمنی رہنے کا نام ہے، اسلام حضور ﷺ سے سچی محبت رکھنے کا نام ہے، اسلام حضور اکرم ﷺ کے آل و اصحاب سے سچی عقیدت و محبت رکھنے کا نام ہے، اسلام‘ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ، متقیوں اور اولیاء اللہ سے وفا، قربانی و جانثاری کا جذبہ رکھنے کا نام ہے۔ اللہ اور اس کے رسول حضرت محمد ﷺپر ایمان لانے کا تقاضا یہ ہے کہ غیر اللہ کی نفی کر کے خود کو عشق کی بھٹی میں جلایا جائے، عشق کی خوشبوسے با وضو رہا جائے اورنماز عشق ادا کی جائے۔ عشق و آدابِ عشق کیا ہیں؟ آداب عشق سکھانے والے بھی اولیا اللہ ہیں اور من (دل ) میں عشق کا پودا لگاکر پروان چڑھانے والے بھی اولیا اللہ ہی ہیں۔ چنانچہ اسی ضمن میں مختصر تحریر پیش کی جارہی ہے۔
’’ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا : جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو حضرت جبرئیل علیہ السلام کو آواز دیتا ہے کہ میں فلاں بندے سے محبت کرتا ہوں، لہذا تم بھی اس سے محبت کرو۔ پس حضرت جبرئیل علیہ السلام بھی اس سے محبت کرتے ہیں۔ پھر حضرت جبرئیل علیہ السلام آسمانی مخلوق میں ندا دیتے ہیںکہ اللہ تعالیٰ فلاں بندے سے محبت کرتا ہے، لہذا تم بھی اس سے محبت کرو۔ پس آسمان والے بھی اس سے محبت کرنے لگتے ہے، پھر زمین والوں (کے دلوں میں) میں اس کی مقبولیت رکھ دی جاتی ہے‘‘۔ (بخاری و مسلم)۔
علم، گفتگو نہیں ہے، بلکہ ایک دوسری ہی چیز ہے۔ زبان کا، علم کے ساتھ کوئی لگاؤ نہیں۔ علم وہ ہے جو دین کے راستہ میں آدمی کے کام آئے۔ علم کے ساتھ منطق کی حیثیت مجازی ہے۔ علم میں صدق کی صفت ہوتی ہے۔ علم کا وجود عالم حقیقت کے سوا کہیں نہیں ہوتا۔ زبان کی حکومت حروف پر ہے اور حروف ختم ہونے والی چیز ہے۔ علم کا مقام دل ہے اور دل کے لئے فنا نہیں۔
ایسے ہی باعظمت و علمی ہستیوں میں ایک قابل احترام ہستی حضرت الحاج محمد عبد الحق رحمۃ اللہ علیہ (ولد محمد سلیمان صاحب مرحوم) ہے، جنکی ولادت ۱۳۱۱ھ؁ میں بمقام کاؤرم پیٹہ جڑچرلہ ضلع محبوب نگر تلنگانہ میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم اپنے والد محترم سے ہی حا صل کئے ، پھر معزز ومشفق اساتذہ عظام (حضرت علامہ مولانا گل محمد صاحبؒ، حضرت شیخ پہلوان صاحب نصراللہ آبادیؒ وغیرہما) سے تعلیم حاصل کئے۔ آپؒ نے مقامی سرکاری مدرسہ کی تعلیم سے فراغت کے بعد عربی، اُردو، فارسی میں مہارت حاصل کی۔ تقریبابارہ سال کی عمر میں اپنے والد کے ساتھ تجارت میں مصروف ہو گئے۔ تجارت کے ساتھ ساتھ ایسے حضراتء جو علم دین وغیرہ سے نا آشنا تھے، انکی تربیت کئے۔ آپؒ بڑے ہی مہمان نواز تھے۔ جیسا کہ استاذ العلماء حضرت مولا نا سید رؤف علی ملتانی صاحب قبلہ صدرمدرس دارالعلوم عربیہ اپنی ترتیب کردہ کتاب ’’عبدالحق حیات اور کارنامے‘‘ میں تحریر فرمائے ہیں کہ گاؤں میں آئے کسی بھی مسافر کے کھا نے کا انتظام بانی علیہ الرحمہ فرمایا کرتے تھے اسلئے کہ آپ بڑے مہمان نواز تھے۔ اسی طرح استاذ العلماء ایک اور کتاب بنام ’’میں دارالعلوم عربیہ ہوں،، میں تحریر فرماتے ہیں کہ الحمدللہ مولوی الحاج عبدالحق نوراﷲ مرقدہ بانی دارالعلوم عربیہ مسلم دورحکمرانی میں ملت اسلامیہ کو دینی تربیت و تعلیم سے سنوارنے کیلئے حـضرت شیخ الاسلام بانی جامعہ نظامیہ رحمۃ اللہ علیہ کے قائم کردہ ادارہ اور وہاں کی تربیت کے نظام پر اپنے وطن کاؤرم پیٹہ میں یہ مرکز قائم فرمائے۔ الحمدللہ جو آغاز سے تا حال بلاوقفہ اُس خدمت میں رواں دواں ہے۔
بانیٔ مدرسہ دارالعلوم عربیہ کاؤرم پیٹہ حضرت عبدالحق رحمۃ اﷲعلیہ نے ۵۷ برس میں ۱۶؍ صفر المظفر۱۳۶۸؁ھ۔۱۸؍ ڈسمبر۱۹۴۸؁ء کو اس دنیائے فانی سے داعی اجل کیلئے لبیک کہا ۔ نماز جنازہ حضرت العلامہ مولانا قاری عبدالکریم تسکین صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے پڑھائی۔ آپ کا مزار مبارک آپ ہی کے قا ئم کردہ ادارہ کی مشرقی سمت باب الداخلہ کے سامنے ہے ۔ہر سال ۱۶؍ صفر المظفر کو بعد نماز عصر سالانہ فاتحہ و چادر گُل اور بعد نماز عشاء میدانِ مدرسہ میں عظیم الشان جلسہ کا اہتمام ہو تا ہے، جس میں حفاظ کرام وغیرہ کو خلعت، دستاربندی، اسنادات وانعامات سے نوازا جاتا ہے۔