حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی شخصیت اور عظمت

   

ابوزہیر سید زبیر ہاشمی نظامی، مدرس جامعہ نظامیہ
اللہ رب العزت اہل بیت کی عظمت و فضیلت کے متعلق کلام پاک میں ارشاد فرماتے ہیں’’ اے حبیب مکرم صلی اللہ علیہ وسلم آپ فرمادیجئے! (لوگو) میں تم سے کچھ نہیں مانگوں گا، سوائے میرے گھر والوں کی محبت کے‘‘۔
(سورۃ الشوری پارہ ۲۵ آیت ۲۳)
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا (رسول اکرم ﷺ اور حضرت خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا کی صاحبزادی ہیں) مسلمانانِ عالَم کے نزدیک ایک برگزیدہ ہستی ہیں۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی ولادت بعثت نبوی کے پانچویں سال میں ۲۰؍جمادی الثانی کو ہوئی ہے۔ آپ ؓکے مشہور القاب زہراء، سیدۃ نساء العالمین، ام السبطین، ام الحسنین، خاتون جنت، طاہرہ، مرضیہ، سیدہ اور بتول ہیں۔ چنانچہ آج حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی شخصیت اور عظمت کے متعلق احادیث کی روشنی میں بہت ہی مختصر اور مفید تحریر پیش کی جارہی ہے ۔
’’حضرت صفیہ بنت شیبہ رضی اﷲعنہا بیان کرتی ہیں : حضرت ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضـی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضوراکرم ﷺ صبح کے وقت باہر تشریف لائے، اس حال میں کہ آپ علیہ السلام ایک چادر اوڑھے ہوے تھے، جس پر سیاہ اُون سے کجاووں کے نقش بنے ہوئے تھے۔ پس حضرت حسن اور حسین رضی اللہ عنہما آئے تو انکو اپنی چادر میں داخل فرمالئے۔ پھر سیدہ فاطمہ رضی اﷲعنہا اور حضرت علی رضی اﷲ عنہ آئے، انکو بھی چادر میں داخل فرمالئے اور یہ آیت مبارکہ پڑھے: ائے اہل بیت ! اﷲتعالیٰ تو یہی چاہتا ہے کہ تم میں سے ہر طرح کی آلودگی دور کردے اور تم کو خوب پاک و صاف کردے‘‘۔ (مسلم ) 
’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضور پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا: ائے فاطمہ! کیا تم نہیں چاہتی ہو کہ تمام جہانوں کی عورتوں، میری اس امت کی تمام عورتوں اور مومنین کی تمام عورتوں کی سردار ہو‘‘۔ (حاکم، مستدرک)
’’حضرت عبداﷲبن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور پاک ﷺ نے حضرت فاطمہ ؓسے فرمایا: اللہ تعالیٰ تمہیں اور تمہاری اولاد کو آگ کا عذاب نہیں دے گا‘‘۔ (طبرانی)
’’حضرت جابر بن عبداﷲرضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضرت نبی کریم ﷺنے فرمایا: میری بیٹی کا نام فاطمہ اس لئے رکھا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اُنہیں اور ان سے محبت رکھنے والوں کو دوزخ سے الگ تھلگ کردیا ہے‘‘۔ (دیلمی)’’حضرت مسور بن مخزمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا: فاطمہ میری جان کا حصہ ہے، پس جس نے انہیں ناراض کیا، اُس نے مجھے ناراض کیا‘‘۔ (بخاری شریف)
’’حضرت ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اﷲعنہا فرماتی ہیں: حضور ﷺ جب سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو آتے دیکھتے تو خوش آمدید کہتے، پھر ان کی خاطر کھڑے ہوجاتے، ان کا ہاتھ پکڑ کر لاتے اور انہیں اپنی جگہ (نشست) پر بٹھالیتے۔ اور جب سیدہ فاطمہ ؓ آپ ﷺ کو اپنی طرف آتے ہوئے دیکھتیں تو خوش آمدید کہتیں، پھر کھڑی ہوجاتیں اورآپ ﷺکو بوسہ دیتیں‘‘۔ (نسائی شریف)
’’حضرت ثوبان (حضور ﷺ کے آزادکردہ غلام ہیں) رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: حضور ﷺجب سفر کا ارادہ فرماتے تو اپنے اہل و عیال میں سب کے بعد جس سے گفتگو فرماکر سفر پر روانہ ہوتے، وہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا ہوتیں، اور سفر سے واپسی پر سب سے پہلے جس کے پاس تشریف لاتے، وہ بھی حضرت فاطمہ رضی اﷲعنہا ہی ہوتیں‘‘ (ابوداؤد شریف)
’’حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ کو عورتوں میں سب سے زیادہ محبت حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے تھی اور مردوں میں حضـرت علی رضی اللہ عنہ سب سے زیادہ محبوب تھے‘‘۔ (ترمذی شریف)’’حضرت ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں: میں نے حضور اکرم ﷺکی صاحبزادی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے بڑھ کر کسی کو عادات و اطوار، سیرت و کردار اور نشست و برخاست میں آپ ﷺسے مشابہت رکھنے والا نہیں دیکھی‘‘ (ترمذی شریف)
’’حضرت مسور بن مخزمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور پاک ﷺنے ارشاد فرمایا: بے شک فاطمہ میری شاخِ ثمر بار (گھنے درخت کی ٹہنی) ہے، جس چیز سے انہیں خوشی ہوتی ہے، اس چیز سے مجھے بھی خوشی ہوتی ہے۔ اور جس چیز سے انہیں تکلیف ہوتی ہے، اس چیز سے مجھے بھی تکلیف پہنچتی ہے‘‘۔ (حاکم، المستدرک)
’’حضرت عبداﷲبن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا: میں درخت ہوں، فاطمہ اُس کی ٹہنی ہے، علی اُس کا شگوفہ اور حسن و حسین اُس کا پھل ہیں اور اہل بیت سے محبت کرنے والے اُس کے پتے ہیں۔ یہ سب جنت میں ہونگے۔ یہ حق ہے، حق ہے‘‘۔ (دیلمی)
’’ حضرت ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا: حضور پاک ﷺ کی ازواج آپ کے پاس موجود تھیں، ان میں سے کوئی بھی وہاں سے نہیں ہٹی تھیں کہ اتنے میں فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا آئیں اور ان کا چلنا ہوبہو رسول اللہ ﷺکے چلنے جیسا تھا۔ جب آپ ﷺنے اپنی لخت جگر کو دیکھا تو انہیں خوش آمدید کہا اور اپنے دائیں یا بائیں جانب بٹھالیا۔ پھر آہستہ سے ان سے کوئی بات کہی تو وہ خوب روئیں۔ جب آپ ﷺ نے انہیں غمگین دیکھا تو دوسری بار انکے کان میں سرگوشی کی تو وہ ہنس پڑیں۔ جب رسول اللہ ﷺاس نشست سے چلے گئے تو میں نے ان سے پوچھا: آپ سے رسول اللہ ﷺنے کیا فرمایا تھا؟ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا : میں رسول اللہ ﷺکے راز کو فاش نہیں کرسکتی۔ جب آپ ﷺکا وصال ہوگیا تو میں (حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا) نے سیدہ (فاطمہ رضی اللہ عنہا) سے کہا کہ میں آپ سے یہ بات پوچھنے پر اصرار اس لئے کررہی ہوں کہ میں آپ پر حق رکھتی ہوں۔ انہوں نے جواب دیا: جی ٹھیک ہے۔ اب میں (فاطمہ رضی اللہ عنہا) اس کے متعلق بتاتی ہوں، جب آپ ﷺنے پہلی مرتبہ مجھ سے سرگوشی کی تو مجھے بتلایا کہ جبریل علیہ السلام ہر سال میرے ساتھ قرآن مجید کا ایک بار دور کیا کرتے تھے، لیکن اس بار انہوں نے دو مرتبہ کیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ میرا آخری وقت آپہنچا ہے۔ لہذا تم اللہ کا تقوی اختیار کرو اور صبر کرو، کیونکہ میں تمہارے لئے آگے بہتری کی خاطر جانے والا ہوں۔ یہ بات سن کر میں رو پڑی۔ جیسا کہ آپ نے دیکھا۔ جب آپ ﷺنے میرا غم دیکھا تو دوسری بار مجھ سے سرگوشی کی اور فرمایا: کیا تم اس بات پر راضی نہیں کہ تم تمام مسلمان عورتوں کی سردار ہو یا اس امت کی عورتوں کی سردار ہو۔ تو میں اس بات پر ہنس پڑی جو آپ نے دیکھا۔
(مسلم شریف)
zubairhashmi7@yahoo.com