حضرت محمد عبدالقدیر صدیقی حسرتؒ

   

محمود اسد اللہ صدیقی
متولی درگاہ صدیق گلشن
الحمد للہ رب العالمین والعاقبتہ للمتقین والصلوٰۃ والسلام علی رسولہ محمد والہ و اصحابہ اجمعین۔ فرمان رب تعالیٰ اور اس کی راہ پر چل جو میری طرف رجوع کرے ۔ فرمانِ رسالت مآب ﷺ : تم میں بہترین وہ لوگ ہیں جن کی زیارت سے خدا یاد آجائے۔
ہم ایسے ہی ایک اللہ کے ولی کا ذکر کر رہے ہیں جو بذاتِ خود اللہ کی طرف ہمیشہ رجوع رہے اور لوگوں کو رجوع کرتے رہے اور جن کے دیکھنے سے خدا یاد آجاتا تھا ۔ ہماری مراد بحرالعلوم شمس المفسرین استاذ العلماء حضرت مولانا الحاج محمد عبدالقدیر صدیقی حسرتؔ رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ سے ہے ۔ ویسے حضرت قبلہ کی ذاتِ بابرکات محتاجِ تعارف نہیں بلکہ حضرت قبلہ کا ذکر رحمت کا نزول کا باعث ہے جیسا کہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’عند الذکر الذاکرین تنزل الرحمۃ۔
حضرت محمد عبدالقدیر صدیقی حسرتؔ رحمتہ اللہ علیہ 27 رجب 1288 ھ یوم جمعہ حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم اپنے والدِ بزرگوار حضرت مولانا الحاج محمد عبدالقادر صدیقی رحمتہ اللہ علیہ کے زیر نگرانی مدرسہ دارالعلوم میں پائی اور پنجاب یونیورسٹی سے منشی ، منشی عالم ، منشی فاضل ، مولوی ، مولوی عالم اور مولوی فاضل کے امتحانات بدرجہ اعلیٰ امتیاز سے کامیاب کئے ۔ درسِ نظامیہ کی تکمیل مولانا مولوی سعید صاحبؒ اور دوسرے اساتذہ کے پاس کی اور سید محمد تونسی صاحب اور مولوی سید عمر صاحب قادریؒ سے سندِ قرات حاصل کی ۔ عربی زبان اور اس کے متعلقہ علوم کی انتہائی تعلیم حبیب ابوبکر بن شہاب صاحبؒ سے حاصل کی ۔ مولانا نادر الدینؒ اور مولانا عبدالصمد صاحبؒ سے منطق اور فلسفہ پڑھا۔ مولانا الٰہی بخش صاحبؒ اور دوسرے اساتذہ سے حدیث کی روایت کی اور متعلقہ علوم پر عبور حاصل کیا ۔ مدرسہ طبیہ میں مولوی منصور علی خاں صاحبؒ سے علم طب حاصل کیا ۔ انگریزی میں بھی آپ نے ایک مناسب حد تک تعلیم پائی ۔
تکمیل تعلیم کے بعد آپ کا تقرر اسی مدرسہ دارالعلوم میں بلا درخواست کردیا گیا جہاں باری باری مختلف علوم پڑھانے پر مقرر کئے گئے ۔ جب مدرسہ دارالعلوم کو ترقی دے کر کلیہ (کالج) عثمانیہ بنایا گیا تو آپ کو شعبۂ دینیات کی صدارت سونپی گئی اور آپ حدیث کے پروفیسر مقرر ہوئے اور کلیہ عثمانیہ (کالج) جب جامعہ عثمانیہ (یونیورسٹی) ہوگئی تب بھی آپ اسی منصب پر فائز رہے ۔ آپ کے شعبہ میں جو لوگ اس وقت کام کرتے تھے وہ کل ہند بنیاد پر منتخب کئے گئے تھے۔ وہ سب اپنے عہدے کے چوٹی کے استاد تھے ، مثلاً مولانا شبیر علی صاحب علم الکلام میں فقیدالعصر تھے ۔ مولانا عبدالواسع فقہ کے مسلم الثبوت ماہر تھے ۔ مفتی عبداللطیف تفسیر میں بے بدل تھے ، اسی طرح مولانا احمد حسین ، علامہ شمسی ، مولانا سید ابراہیم ، مولانا سید غلام نبی ، ان میں ہر ایک اپنے فن کے ماہر تھے اور یہ تمام جلیل القدر علماء نہ صرف سرکاری حیثیت میں آپ کو صدر شعبہ تسلیم کرتے تھے بلکہ خود اپنے اپنے علوم میں آپ کے علمی وزن کو اور اس میں آپ کی فوقیت کو مانتے تھے ۔ نہ صرف یہ بلکہ مغربی تعلیم یافتہ اساتذہ جو مغربی علوم پڑھانے پر مامور تھے ، وہ بھی آپ کے دلی معترف تھے۔ جو علوم جدید کی تعلیم نے ان میں پیدا کردیئے تھے اور حضرت ان کا نہایت سہولت سے شافی جواب دیا کرتے تھے ۔ اس کے علاوہ آپ کے گھر پر بھی اوقات کار کے علاوہ ہر طرح کے اہل علم کا مجمع رہتا اور آپ سب کی ذہنی ، علمی الجھنوں کو دور فرمادیا کرتے ۔
آپ اپنی اعلیٰ معلومات کی وجہ سے حسب الحکم سرکار عالی کمیٹی اصلاح نصاب دارالعلوم شعبۂ دینیات کلیہ جامعہ عثمانیہ کے ممبر مقرر ہوئے ۔ آپ کی رائے ہمیشہ پسندیدگی کی نظر سے دیکھی گئی اور آپ کے مشوروں سے نصاب شعبۂ دینیات دارالعلوم کو بہت فائدہ پہنچا ۔ روح الادب آپ کی مصنفہ کتاب مولوی کے نصاب کیلئے سرکار سے منطور کی گئی تھی اور انتخاب شاہنامہ بھی سرکار میں پسند کیا گیا۔
1933 ء کو جب آپ جامعہ عثمانیہ سے وظیفہ حسن خدمت پر سبکدوش ہوئے تو مدرسہ نظامیہ کے اعزازی ناظم مقرر کردیئے گئے۔ اپنی انتظامی قابلیت اور اثر و رسوخ کی وجہ سے آپ نے جلد ہی اس دینی مدرسہ کو حکومت سے ’جامعہ نظامیہ ‘ منوالیا۔ اسی طرح آپ نے حیدراباد کے مشہور سرکاری دینی ادارے ’’دائرۃ المعارف‘‘ میں بھی علمی اور انتظامی خدمات انجام دیں ۔ سرکاری خدمات سے پوری طرح فارغ ہونے کے بعد آپ کا گھر طالب علموں کیلئے منبع فیض رہا ۔ پھر ایک ایسا وقت آیا جب لوگوں نے محسوس کیا کہ حیدرآباد دکن کا کوئی بمشکل ایسا پڑھا لکھا ہے جس نے کسی نہ کسی نوبت پر آپ سے کچھ نہ کچھ سیکھا ہو۔ خواہ اس کا علم و فن کچھ ہی کیوں نہ ہو تو سب نے بالاتفاق آپ کو استاذ العلماء پکارنا شروع کردیا ۔ چنانچہ آپ کے شاگردوں میں نہ صرف دینی علماء شامل ہیں بلکہ طبیعات اور ریاضی کے ماہر ڈاکٹر رضی الدین صدیقی صاحب اور کراچی کے مشہور سرجن ڈاکٹر منور علی و غیرہ شامل ہیں ۔ اسی طرح انگریزی کے مشہور پروفیسر ڈاکٹر لطیف آپ کے نیاز مند اور فیض یافتہ تھے ۔ اسی طرح اردو کے مشہور شاعر ، ادیب اور معاشیات پر اردو زبان کے پہلے مصنف پروفیسر الیاس برنی صاحب اس وقت کے صدر شعبہ معاشیات بھی آپ کے خاص شاگرد تھے۔ آپ کی شخصیت جامع کمالات تھی ۔ وہ کونسا علم و فن تھا جس میں آپ کو دستگاہ نہ تھی ۔ تفسیر ، حدیث ، اسماء الرجال ، اصول حدیث، اصول فقہ ، ادب ، عقائد ، تصوف ، منطق ، فلسفہ کلام ۔ غرض جس فن میں آپ سے استفادہ کیا جاتا تو معلوم ہوتا کہ وہی حضرت کا خاص فن ہے۔
آپ کا خاص موضوع تصوف ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ تصوف آپ کی شاعری پر چھایا ہوا ہے اور اس میں وہ شیخ اکبر محی الدین ابن العربیؒ کو سب سے بڑا استاد مانتے ہیں۔ آپ نے عربی ، فارسی ، اردو اور ہندی چاروں زبانوں میں شعر کہے ہیں ۔ جس میں مدح و قصائد ، نعتِ رسول صلی للہ علیہ وسلم ، مدح اولیاء کرام ، نصائح اور حکم و تصوف وغیرہ موجود ہیں۔ بحیثیت ایک مسلمان کے آپ مدح نبی ﷺ کو اپنا دین و ایمان سمجھتے تھے ۔ آپ کے دیوان کے حصہ کا نام ’’زمزمہ محبت‘‘ ہے۔ دیوان میں آپ نے اس بات کا اظہار کیا ہے، سب سے اہم ہے کیونکہ اسی کی بناء پر صوفی شاعروں کی صف اولین میں شمارے ہوتے ہیں۔ آپ کی شاعری کا مقصد عبد اور معبود کے تعلقات کو واضح کرنا اور اس طرح اس ربط میں بندوں کو مربوط کردینا ہے۔
جبر و اختیار کا مسئلہ۔ یعنی یہ کہ انسان اپنے افعال کا مختار ہے یا ہر فعل میں مجبور ایک معرکۃ الآراء مسئلہ رہا ہے اور اسی مسئلہ کی وجہ سے معتزلہ وغیرہ کی ایک جماعت پیدا ہوگئی تھی ، آپ نے اسے اس خوبی سے سمجھایا ہے کہ اس کے بعد کوئی تشنہ باقی ہی نہیں رہتا ۔ آپ کو شعر گوئی سے بچپن ہی سے شغف تھا ۔ مکمل طور پر فنی معلومات کا خزانہ تھا ۔ بنوٹ ، کشتی وغیرہ فنون حرب سے بھی خاص دلچسپی اور مہارت رکھنے کی وجہ سے آپ (جس طرح علماء اور مشائخین کے استاد ہیں) سپاہیوں کے رہنما بھی ہیں ۔ آپ نے مختلف علوم و فنون میں کوئی پچاس کتابیں لکھی ہیں ۔ طوالت کے خوف سے یہاں صرف چند کا ذکر کیا جارہا ہے ۔
– 1 تفسیر صدیقی (قرآن حکیم کی تفسیر)
– 2 الدین (فن حدیث میں) یہ کتاب حدیث جبرئیل کی تفسیر ہے۔
– 3 حکمت اسلامیہ (علمِ کلام کی ایک بہترین کتاب ہے جو جامعہ کے نصاب فلسفہ میں داخل کی گئی تھی)
– 4 معیار الکلام (علوم عقلیہ و دینیہ میں)
– 5 شرح فصوص الحکم (شیخ ا کبر محی الدین ابن عربیؒ کی اس نام کی کتاب کی تفسیر ہے ، شیخ کی تقریروں کو سمجھنے کیلئے اب تک ایسی جامع شرح ناپید ہے) تصوف کے طالب علموں کیلئے یہ نایاب چیز ہے۔
– 6 معارف (مضامین کا مجموعہ) تصوف کے مسائل پر ہمیں ان کے مطالعہ سے حضرت کی اعلیٰ نثر نگاری کا علم ہوتا ہے۔
– 7 طلسمِ حقیقت (بطور چیستان لکھی گئی جو اپنی آپ مثال ہے)
– 8 التعلیم الطبعی فی اللسان العربی (عربی کا رسالہ بطور ڈائرکٹ میتھڈ (Direct Method)
آپ کو محتلف سلاسل میں اکابرین اولیائے کرام سے بیعت و خلافت تھی ۔ جن میں حضرت کے والد ماجد حضرت مولانا الحاج محمد عبدالقادر صدیقی رحمتہ اللہ علیہ ، حضرت کے حقیقی ماموں حضرت مولانا سید محمد صدیق محبوب اللہ قادری رحمتہ اللہ علیہ ، شاہ عبدالغنی صاحب قبلہ مہاجر مدنی رحمتہ اللہ علیہ ، شاہ احسان الحق صاحب فاروقی رحمتہ اللہ علیہ ، حضرت نقیب الاشرف پیر حسام الدین صاحب محمود رحمتہ اللہ علیہ (سجادہ نشین روضہ بغداد) سے تمام سلاسل میں اجازت حاصل تھی ۔
ایک طویل عرصہ تک تشنگانِ علم کو علم کے زیور سے اور اپنے روحانی فیضان سے آراستہ و پیراستہ فرماتے رہنے کے بعد کم و بیش 93 سال کی عمر پاکر 17 شوال المکرم 1381 ھ بمطابق 24 مارچ 1962 ء کی سہ پہر آپ کی روح مبارک قفس عنصری سے پرواز کر گئی اور اپنے رفیق العلی سے جا ملی آپ بمقام صدیق گلشن ، بندل گوڑہ ، بہادر پورہ آرام فرما ہیں۔ آج بھی آپ کی بارگاہ مرجع خلائق ہے جہاں بلا لحاظ مذ ہب و ملت زائرین آپ سے اکتساب فیض کرتے ہیں ۔ بے شک حیدرآباد دکن میںآپ کی علمی و روحانی خدمات باعثِ فخر ہیں ۔ حضرت کے سہ روزہ عرس مبارک کی تقاریب ہر سال 18/17/16 شوال االمکرم کو منعقد ہوتی ہے جس میں بلا لحاظ مذہب و ملت زائرین کی کثیر تعداد آپ کے روحانی فیضان سے فیضیاب ہوتی ہیں۔