حقیقت ِمعراج اور مقامِ قاب قوسین

   

مولانا حبیب سہیل بن سعید العیدروس
حضور اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم کو اﷲ تعالیٰ نے عظیم ترین اور لاتعداد معجزات عطا فرمائے جن میں واقعۂ معراج اہمیت و پروازِ نبوت محمدی ﷺ کا آئینہ دار ہے ۔ اس واقعۂ معراج کی تکمیل تین مراحل میں طئے ہوتی ہے۔ پہلا مرحلہ مسجد حرام سے بیت المقدس تک کا سفر ، دوسرا مرحلہ بیت المقدس سے سدرۃ المنتھیٰ تک کا سفر اور تیسرا مرحلہ سدرۃ المنتھیٰ سے قَابَ قَوْسِیْنِ اَوْ اَدْنٰی تک کی رفعتوں کا سفر ۔ اس مقام پر عرفاء فرماتے ہیں کہ معراج النبی ﷺ کا تین مراحل میں طئے ہونا حضور ﷺ کی شخصیت کے تین گوشوں کی طرف اشارہ ہے ۔ ایک گوشۂ بشریت ہے جوکہ اس دنیا کے لئے ہے اور مسجد حرام سے بیت المقدس کا سفر اور اس سفر کے دوران پیش آنے والے مشاہدات اور بیت المقدس میں امامت انبیاء ورُسُل یہ معراجِ بشریتِ محمدی ﷺ ہے۔ دوسرا گوشۂ نورانیت ہے اور یہ گوشہ عالم بالا اور فردوسِ بریں و سدرۃ المنتہیٰ تک کیلئے ہے اور بیت المقدس سے سدرۃ المنتھیٰ کا سفر نورانیتِ مصطفی ﷺ کی معراج ہے ۔ تیسرا گوشہ حقیقت مصطفی ﷺ کا ہے ۔ یہ گوشہ اُس عالم کے لئے جہاں نہ کوئی مکان ہے نہ کوئی جہان ہے یہ عالم لامکاں کے لئے مخصوص ہے ۔ اور سدرۃ المنتہیٰ سے قاب قوسین کا سفر اور اﷲ رب العزت سے دیدار و ملاقات کا شرف حقیقتِ مصطفی ﷺ کی معراج ہے ۔ اس طرح حضور انور ﷺ کی شخصیت کاملہ کے ہر گوشہ کی معراج کروائی گئی۔
جب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم مسجد حرام سے بیت المقدس میں تشریف لائے ۔ آپ ﷺ نے دیکھا کہ تمام انبیاء و رُسل اور عالم بالا کے فرشتے صف در صف کھڑے ہیں اور جبرئیل علیہ السلام اقامت پڑھتے اور حضور ﷺ کو امامت کی درخواست کرتے ہیں۔ سرکارِ دوعالم ﷺ امامت فرماتے ہیں۔ اور تمام انبیاء اور ملائکہ آپ کی اقتداء میں نماز ادا کرتے ہیں۔ یہ وہ موقع تھا کہ بشریت محمدی صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم ہر قوم اور ہرزمانے کے ہادی و رہبر اور پیشوائے اُمت کے امام بنے ہوئے ہیںاور یہ آپ ﷺ کی بشریت کا کمال تھا جسے انبیاء کی امامت کے ذریعہ معراج عطا کی گئی ۔ (تفسیرالدرالمنثور)
پھر جب رسول اﷲ ﷺ بیت المقدس سے چلتے ہی اور تمام آسمانوں کی سیر کرتے اور انبیائے سابقین سے ملاقات کرتے ہوئے بیت المعمور پہونچتے ہیں جوکہ فرشتوں کا کعبہ ہے ۔ کعبۂ ارضی سے ٹھیک اوپر ساتویں آسمان پر ہے جہاں ہر روز ستر ہزار ملائکہ داخل ہوتے ہیں اور اس کا طواف کرتے ہیں۔ اسی مقام پر آپ ﷺ کی ملاقات آپ کے جد امجد حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام سے ہوتی ہے اور پھر آپ کو سدرۃ المنتھیٰ لے جایا جاتا ہے جوکہ ایک نورانی درخت ہے۔انتہائی بڑا اور خوبصورت ہے ۔ یہاں حضرت جبرئیل علیہ السلام کا گھر ہے اور تمام مخلوقات کے عروج کی انتہاء بھی ۔ اﷲ تعالیٰ نے یہاں جمیع عالم نور ، جمیع ملائکہ کو حضور ﷺ کا دیدار اور ملاقات کے لئے جمع فرمایا اور سب حضور اکرم ﷺ کے چہرۂ انور کے انوار کی ضیاؤں سے مشرف ہوئے اور یہ جمع ہونا اﷲ تعالیٰ کے حکم کے ساتھ ساتھ فرشتوں کی اپنی خواہش کے سبب تھا ، جیسا کہ حدیث میں مذکور ہے کہ فرشتے اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ اقدس میں دعا مانگتے تھے اے کائنات کے مالک ! جس محبوب کی خاطر تونے یہ کائنات تخلیق فرمائی ، جس پر تو اپنی زبانِ قدرت سے ہمہ وقت درود پڑھتا ہے اور ہم بھی تیرے حکم کی تعمیل میں اُس ہستی پر درود و سلام کا نذرانہ بھیجتے ہیں آج وہی مہمانِ ذی وقار تشریف لارہے ہیں ۔ اے اﷲ تعالیٰ ! ہمیں اپنے اس رسولِ محتشم ﷺ کا دیدار عطا فرما ۔ اﷲ جل مجدہُ نے ان مقرب ملائکہ کی دعا کو شرف قبولیت بخشا اور فرمایا کہ تم ساری کائناتِ آسمانی سے سمٹ کر اس درخت ’’سدرۃ المنتھیٰ‘‘پر بیٹھ جاؤ ۔ تمام فرشتے ہجوم در ہجوم اُمڈ پڑے ۔ فرشتوں کی اتنی کثرت ہوئی کہ وہ درخت ان کے نور کے سائے میں آگیا۔ ’’فرشتوں نے جب اﷲ تعالیٰ سے حضور نبی اکرم ﷺ کی زیارت کی خواہش کا اظہار کیا تو انھیں اجازت دے دی گئی پس فرشتوں نے سدرۃ المنتھیٰ کو اپنی کثرت سے چھپالیا تاکہ نبیٔ اکرم ﷺ کی زیارت کرسکیں‘‘۔ (تفسیر الدرالمنثور)
سدرۃ المنتھیٰ کے مقامِ عظیم پر قدسیانِ فلک کو مہمانِ ذی وقار کے دیدارِ فرحت آثار کا لازوال شرف حاصل ہوا ۔ اسی مقام کو قرآن میں یوں بیان فرمایا گیا : ’’جب سائے میں لے کر چھپالیا سدرہ کو جس نے چھپالیا (ملائکہ کی کثرت نے ) ‘‘ (سورہ النجم ، آیت: ۱۶) یہ تمام عالمِ نور کا حضور ﷺ کا دیدار کرنے کے لئے جمع ہونا یہ نورانیتِ مصطفی کی معراج ہوئی ۔
جب حضور اکرم ﷺ سدرۃ المنتھیٰ سے آگے بڑھنے لگے تو جبرئیل امین علیہ السلام رُک گئے۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا : جبرئیل چلو! تو عرض کرنے لگے :’’اگر میں ایک چیونٹی برابر بھی آگے بڑھا تو (تجلیات الٰہی کے پرتَو سے ) جل جاؤنگا‘‘۔
سدرۃ المنتھیٰ سے آگے کی کائنات یہ عالمِ لامکاں ہے۔یہاں اﷲ تعالیٰ کے انوار و تجلیات اتنے زیادہ ہیں کہ جبرئیل امین علیہ السلام بھی آگے نہیں بڑھ سکتے ۔ براق اور جبرئیل ؑ دونوں وہیں رُک گئے ۔ یہاں عالم مکان ختم ہوچکا اب اس کے آگے نہ کوئی مکاں نہ کوئی مکیں بس خدا ہی خدا اور اسی کے جلوے ہیں۔ حضور ﷺ آگے بڑھتے ہوئے لامکاں میں داخل ہوتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے اپنے محبوب مہمان کے لئے ایک سبز رنگ کا ملکوتی اور نورانی تخت بھیج دیا جس کا نام ’زخرف‘ تھا۔ یہ تخت آپ کو لیکر عرشِ معلیٰ کی سیرو سیاحت کراتا لامکاں میں چلا گیا ۔ اور ایک مقام پر وہ تخت بھی پیچھے رہ جاتا ہے اور تجلیات ربانی کا پرتَو مزید تیز ہوجاتا ہے ۔ یہاں آگے ایک نور تھا اور دیکھنے والے کو اس نور کے سوا کچھ نظر نہ آتا تھا۔اب کسی کو معلوم نہ تھا کہ یہ نور کیا ہے؟ کیساہے؟ کہاں سے ہے؟ کہاں تک ہے؟ کہاں جانے والا ہے؟ اس حصارِ نور میں داخل ہونے کے بعد حضور نبی مکرم ﷺوسلم کو بڑی عزت، وقار اور تمکنت کے ساتھ آگے لے جایا گیا۔ایک سفر طئے ہونے کے بعد وہ بقعۂ نور بھی رُک جاتا ہے ۔ اُس کے بعد آگے ایک ایسا عالم نور تھا جہاں اَنوار و تجلیاتِ الٰہی پْرفِشاں تھے۔ اللہ رب العزت کی ذاتی اور صفاتی تجلیات سے بھرپورعالمِ لامکاں کے جلوے ہر سو جلوہ ریز تھے۔
مہمانِ عرش حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تن تنہا ان جلوؤں میں داخل کر دیا گیا۔ سب سے پہلے اللہ پاک کے اسماء کے پردے ایک ایک کر کے گزرتے رہے اور ہر اسم مبارک کے رنگ سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گزارا گیا۔جوں ہی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام پردوں سے گزرچکے ، آگے سے آواز آئی ، امام شعرانیؒ بیان فرماتے ہیں کہ آواز آئی : ’’اے پیارے محمد ﷺ رک جائیے! بے شک آپ کا رب (استقبال کے لئے) قریب آرہا ہے‘‘۔(الیواقیت والجواہر)
یہاں تک کا سفر، سفرِ محبت و عظمت تھا۔ اب یہاں سے آگے سفرِ وصال تھا اور یہی وہ مقام ہے جہاں حضور ﷺ کو رُک جانے کا حکم ہوا یہی مقام ’’قَابَ قَوْسِیْن‘‘ تھا جسے اﷲ تعالیٰ نے اپنی ملاقات و دیدار کے لئے منتخب فرمایا تھا ۔ اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہوتا ہے : ’’پھر وہ (رب العزت اپنے حبیب ﷺ سے ) قریب ہوا ، پھر اور زیادہ قریب ہوگیا o پھر (جلوۂ حق اور حبیب مکرم ﷺ میں صرف ) دو کمانوں کی مقدار فاصلہ رہ گیا یا (انتہائے قرب میں ) اس سے بھی کم (ہوگیا) o ‘‘ (سورۃ النجم )
اس مقام پر حضور سرورِ کون و مکاں ﷺ کو اﷲ تعالیٰ نے اپنے دیدار سے مشرف فرمایا اور ابتداء میں دو کمانوں کا فاصلہ تھا ، پھر اختتامِ ملاقات پر اﷲ تعالیٰ نے اس فاصلہ کو بھی ختم فرماکر اس سے بھی قریب تر فرمایا ۔ اﷲ تعالیٰ اور حضور اکرم ﷺ کے درمیان کوئی فاصلہ نہ رہا ،قَابَ قَوْسِیْنتک فرق تھا لیکن جب اَوْ اَدْنٰی فرمایا تو تمام فاصلے مٹاکر اﷲ تعالیٰ نے ملاقات فرمائی اور فرق یہ رہ گیا کہ اﷲ تعالیٰ ’’خالق ‘‘اور حضور اکرم ﷺ ’’مخلوق‘‘ ، حضور عابد اور اﷲ تعالیٰ معبود ۔ باقی تمام فاصلے مٹادیئے گئے اور اس کے بعد کیا ہوا وہ حضور اکرم ﷺ جانیں اور خدا جانے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں حقیقتِ مصطفی ﷺ کو معراج ہوئی۔اﷲ تعالیٰ سے دعا ہیکہ وہ ہمیں حضور اکرم ﷺ کی معرفت و محبت اور اطاعت و اتباع عطا فرمائے اور ہمارے گناہوں کو معاف فرماکر صراطِ مستقیم پر گامزن فرمائے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین ﷺ۔
٭ ٭ ٭