حق ملکیت پر چالیس دن تک چلی عدالت کی کاروائی‘ سپریم کورٹ میں بابری مسجد کے مقدمے کی سماعت مکمل‘ فیصلہ محفوظ

,

   

عدالت عظمی کی پانچ رکنی ائینی بنچ نے یومیہ 40دن سماعت کی‘17نومبر سے پہلے فیصلہ آنے کی امید‘ فریقین سے تین دن کے اندر جواب داخل کرنے کا حکم جاری‘ مسلم فریقین کے وجیل ڈاکٹر راجیو دھون نے کہا‘ عدالت ہمیں مسجد کو دوبارہ تعمیر کرنے کی اجازت دے

نئی دہلی۔ بابری مسجد‘ رام جنم بھومی حق ملکیت کے مقدمہ کی 40دنوں تک یومیہ کے سماعت کے بععد سپریم کورٹ نے اپنا فیصلہ محفوظ کرلیا ہے اور 17نومبر سے پہلے اس پر فیصلہ آنے کی امید ظاہر کی جارہی ہے۔ سماعت ختم ہونے کے ساتھ ہی سپریم کورٹ نے سبھی فریقین کو حکم دیا ہے کہ تین دنوں کے اندر اندر اپنا جواب عدالت میں داخل کریں۔

اس کے ساتھ ہی سپریم کورٹ نے خصوصی اختیارات والی دفعہ142کے تعلق سے فریقین سے رائے طلب کی ہے۔

کورٹ میں ا قت ہنگامی صورت پیدا ہوگئی تھی کہ جب ڈاکٹر راجیو دھون نے رام جنم بھومی کے تعلق سے پیش کیے گئے نقشے کو پھاڑ دیاتھا‘ حالانکہ بعد میں ڈاکٹر دھون نے وضاحت کی انہوں نے ایسا چیف جسٹس کے کہنے پر کیاہے۔

موصول ہوئی خبر کے مطابق حتمی سماعت کے دوران مندر کی حمایت میں عرضداشت داخل کرنے والے سینئر وکلا سی ایس ودیاناتھن‘ رنجیت کمار‘ جئے دیپ گپتا‘ وکاس سنگھ‘ ایس کے جین‘ پی این مشرا‘ اور دیگر نے مختصر بحث کی او رعدالت کو بتایا کہ صرف مغل اور انگریز حکومت کی جانب سے گرانٹ اور منظوری مل جانے سے مسلمانوں کو حق ملکیت نہیں دی جاسکتی اور یہ کہ مسلمانوں نے حق ملکیت کا سوٹ مقرر معیاد میں داخل نہیں کیاہے اس لئے وہ باقابل سماعت ہے۔

ہم آج سب سے پہلے رام للا کے وکیل سینئر ایڈوکیٹ سی ایس ودیاناتھن نے بحث شروع کی اور عدالت کو بتایا کہ مسلمان کسی بھی مسجد میں نماز پڑھ سکتے ہیں لیکن ہندوؤں کے لئے ایودھیا رام کا جنم استھان ہے اور ان کی اس جگہ سے آستھا جڑی ہوئی ہے۔

انہوں نے مزید کہاکہ رام کے ماننے والے رام جنم استھان کا درشن صدیوں سے کرتے آرہے ہیں حالانکہ انگریزوں نے انہیں مسجد کے اندرونی صحن میں جانے کی اجازت نہیں دی تھی۔انہوں نے عدالت کو مزید بتایا کہ مسلم فریق نے عدالت میں ایساکوئی ثبوت پیش نہیں کیا جس سے یہ واضح ہوکہ متذکرہ اراضی مسلمانوں کے خصوصی قبضہ میں تھی نیز ایسا کوئی بھی ریکارڈ موجود نہیں ہے کہ متنازعہ اراضی کے مالک مسلمان ہیں۔

انہوں نے عدالت کو مزید بتایا کہ ہوسکتا ہے کہ 1857سے 1934کے درمیان مسلمانوں نے مسجد میں جمعہ کی نماز ادا کی ہولیکن اس کے بعد مسجد مں نمازادا کرنے کے کوئی ثبوت نہیں ملے ہیں‘ اس کے برخلاف ہندو ہمیشہ سے اس جگہ پر پوجا پراتھنا کرتے رہے ہیں۔

سی ایس دیاناتھن کی بحث کے بعد ایڈوکیٹ رانجیت کمار نے بحث کی شروعات کی او رعدالت کو بتایا کہ پوجا کرنے کے لئے مورتی کا ہونا ضروری نہیں بلکہ عقیدہ اہمیت رکھتا ہے۔ ایڈوکیٹ رانجیت کمار کی بحث کے بعد ایڈوکیٹ وکاس سنگھ نے بحث شروع کی او رعدالت میں چند تاریخی کتابیں پیش کرنے کی کوشش کی جس پر جمعیت علماء ہند کے وکیل ڈاکٹر راجیو دھون نے شدید احتجاج کیا اور عدالت کو کہا کہ نئی کتابیں پیش کرنے کا وقت جاچکا ہے لہذا آج سماعت کو ان کتابوں کو ریکارڈ پر نہیں لینا چاہئے۔

وکاس سنگھ نے کتابوں کے ساتھ ساتھ ایک نقشہ بھی عدالت میں پیش کیا جس پر ڈاکٹر راجیو دھون مزید آگ بگولہ ہوگئے اور عدالت کو کہا کہ وہ اس نقشہ کو پھینک دینا چاہتی ہیں جس پر چیف جسٹس نے انہیں کہاکہ وہ اسے پھاڑ سکتے ہیں جس کے بعد ڈاکٹر راجیودھون نے بھری عدالت میں اس نقشہ کے تکڑ ے تکڑے کردئے جس پر فریق مخالف نے عدالت میں واویلا مچادیا او رسوشیل میڈیا پر یہ خبر آگ کی طرح پھیل گئی۔

اسی درمیان سنگھ کی جانب سے داخل کی گئی کتابوں کو چیف جسٹس نے قبول کرتے ہوئے کہاکہ وہ اسے پڑھ لیں گے اور وہ اس کا مطالعہ سبکدوش ہوجانے کے بعد بھی کرتے رہیں گے جس پر ایڈوکیٹ وکاس گپتا نے کہاکہ اگر فیصلہ لکھنے سے قبل اس کا مطالعہ کیاجائے تو یہ سود مند ثابت ہوسکتی ہے۔

ایڈوکیٹ وکاس سنگھ کی بحث کے بعد نرموہی اکھاڑہ کے وکیل ایس کے جین نے بحث شروع کی او رعدالت کو بتایا کے مسلمانوں یہ ثابت کرنے میں ناکام ثابت ہوئے ہیں کہ حق ملکیت پر ان کے دعوی بنتا ہے نیز انہوں نے مزیدکہاکہ مسلمانو ں کی جانب سے داخل کردہ سوٹ کے تحت ناقابل سماعت ہے۔

ایڈوکیٹ ایس کے جین کی بحث کے بعد سینئر ایڈوکیٹ پی این مشراء نے وقف اورل لمٹیشن پر بحث کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ جس وقف کی بات مسلم فریق کررہے ہیں وہ وقف قانونی وقف ثابت نہیں ہوا ہے۔