حوصلہ ہار کے بیٹھوں گا تو مرجاؤں گا

   

بہار… کورونا سے بے خوف رائے دہی
کشمیر… برائے فروخت… واہ رے احسان فراموشی

رشیدالدین
کورونا وباء کے درمیان بہار اسمبلی چناؤ کے پہلے مرحلہ میں حوصلہ افزاء رائے دہی ہوئی۔ مارچ میں ہندوستان میں کورونا لہر کے آغاز کے بعد ملک میں یہ پہلا چناؤ ہے جو نہ صرف الیکشن کمیشن بلکہ سیاسی پارٹیوں کے لئے کسی چیلنج سے کم نہیں۔ سیاسی جماعتوں کو بس ووٹ چاہئے، لہذا الیکشن کمیشن کی کووڈ گائیڈ لائینس کی دھجیاں اڑاتے ہوئے انتخابی مہم چلائی گئی ۔ قائدین اور امیدواروں میں کسی نے احتیاط سے کام نہیں لیا اور نہ ہی عوام نے کورونا سے بچاؤ کی فکر کی۔ اگرچہ ملک میں ان لاک کا پانچواں مرحلہ چل رہا ہے لیکن کورونا کی صورتحال کو قابو میں کہا نہیں جاسکتا۔ باوجود اس کے انتخابی مہم اور پھر پہلے مرحلہ کی رائے دہی کے موقع پر عوامی جوش و خروش نے دستور اور جمہوریت پر عوام کے اٹوٹ ایقان کا ثبوت دیا ہے ۔ کورونا سے ڈر اور خوف کے ماحول کے باوجود پہلے مرحلہ میں 55 فیصد کے قریب رائے دہی اپنی پسند کی حکومت کی تشکیل میں عوامی دلچسپی کا مظہر ہے۔ بہار کے نام کے ساتھ ہی پسماندگی کا تصور ذہن میں آجاتا ہے لیکن پسماندہ ریاست کے رائے دہندوں نے اپنے سیاسی شعور کا مظاہرہ کیا۔ سیاسی شعور کے لئے انسان کا دولتمند ، ترقی یافتہ یا پھر تعلیم یافتہ ہونا ضروری نہیں ہے ۔ بہار کے حکمرانوں سے ملنے والے تلخ تجربات نے عوام کو سیاسی طور پر باشعور بنادیا ہے۔ تجربات کی بھٹی میں تپ کر انسان کندن بن جاتا ہے ۔ ٹھیک اسی طرح مفاد پرست سیاست دانوں نے بہار کی جنتا کو اچھے اور برے ، دوست دشمن ، ڈھونگی اور حقیقی ہمدرد میں تمیز کا فن سکھا دیا ہے ۔ پہلے مرحلہ کے تحت 71 اسمبلی حلقوں میں رائے دہی ہوئی ۔ یہ وہ علاقے ہیں جہاں ماؤسٹوں کا خاصہ اثر ہے۔ گزشتہ انتخابات میں آر جے ڈی کو اس علاقہ میں زائد نشستیں حاصل ہوئی تھیں۔ ماؤسٹ متاثرہ علاقوں میں 50 فیصد سے زائد رائے دہی کو سیاسی مبصرین شعور بیداری قرار دے رہے ہیں جبکہ ہم اسے نتیش کمار سے بیزاری کے طور پر دیکھ رہے ہیں ۔ بہار چناو کے سلسلہ میں وہاں کے نامور صحافیوں سے گفتگو کا موقع ملا۔ ان کا کہنا ہے کہ تبدیلی کی لہر کے نتیجہ میں رائے دہی کے باقی مرحلوں کا فیصد اور بھی زیادہ ہوسکتا ہے ۔ بہار کے رائے دہندوں کو جیسے اس موقع کا بے چینی سے انتظار تھا۔ نتیش کمار کی حکمرانی سے عوام کی ناراضگی اپنی جگہ لیکن ساتھ میں عوام کے فیصلہ کو ٹھوکر مار کر بی جے پی سے اتحاد پر عوام برہم ہیں اور یہ ان کے لئے بدلہ لینے کا بہترین موقع ہے۔ 2015 اسمبلی انتخابات میں عوام نے جے ڈی یو ، آر جے ڈی اور کانگریس پر مشتمل گرانڈ الائنس کو اکثریت عطا کرتے ہوئے سیکولر طاقتوں کے حق میں فیصلہ دیا تھا لیکن خود کو بہار کا چانکیہ سمجھنے والے نتیش کمار نے عوامی فیصلہ کی توہین کرتے ہوئے عوام کے اعتماد کو دھوکہ دیا اور بی جے پی سے ہاتھ ملا لیا ۔ نریندر مودی نے بی جے پی انتخابی مہم کی قیادت کی تھی۔ 2014 ء میں وزیراعظم بننے کے بعد مودی کی مقبولیت آسمان پر تھی لیکن بہار کے عوام نے مودی لہر کے خلاف فیصلہ دیا۔ لالو پرساد سے اختلاف کا بہانہ بناکر نتیش کمار نے بی جے پی کا دامن تھام لیا اور بہار میں بی جے پی کو قدم جمانے کا موقع دیا۔ انہوں نے یہ نہیں سوچا کہ عوام کا فیصلہ بی جے پی کے ساتھ جانے کیلئے نہیں تھا ۔ عوام کے سیکولر ووٹ کو نتیش کمار نے بی جے پی کی جھولی میں ڈال دیا ۔ نتیش کمار نے جب سے سیکولرازم سے منہ موڑا عوام نے کبھی بھی بی جے پی سے اتحاد کو پسند نہیں کیا ۔ بہار کے ووٹرس غریب ، پسماندہ اور مسائل کا شکار ضرور ہیں لیکن سیکولرازم پر اٹوٹ ایقان رکھتے ہیں جس کا مظاہرہ 2015 ء میں دیکھنے کو ملا۔ بہار کے نتائج قومی سیاست میں اہم تبدیلیوں اور نئی صف بندیوں کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتے ہیں۔ اگر نتیش کمار کو شکست ہوتی ہے تو مودی کے لئے خطرہ کی گھنٹی ہوگی ۔ عمر کے اعتبار سے آئندہ عام انتخابات میں نریندر مودی کیلئے وزیراعظم کی کرسی حاصل کرنا آسان نہیں ہوگا۔ مودی نے بہار کیلئے ایک لاکھ 20 ہزار کروڑ کے ترقیاتی پیاکیج کا اعلان کیا تھا لیکن اس بار پیاکیج کے خرچ کا حساب دینے کی ہمت نہیں ہے۔ انتخابی ریالیوں میں نریندر مودی بہار کے مسائل کے بجائے رام مندر ، طلاق ثلاثہ اور کشمیر سے 370 کی بر خواستگی جیسے کارناموں کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں۔ ان موضوعات سے بہار کے عوام اور ریاست کی ترقی کا کیا تعلق ہے ؟ دراصل ایک لاکھ 20 ہزار کروڑ کا پیاکیج مودی کے گلے کی ہڈی بن چکا ہے ۔ پیاکیج پر عمل آوری میں ناکامی کے احساس نے مودی کو جذباتی مسائل پر انتخابی مہم کیلئے مجبور کردیا ۔ بہار کو دینے کے لئے مودی کے پاس کچھ نہیں ہے۔ ان کا دامن خالی ہے۔ بہار کو غربت ، بیروزگاری اور بنیادی سہولتوں کی کمی جیسی صورتحال کا سامنا ہے ۔ روزگار ، تعلیم ، صحت اور ویلفیر کے شعبہ جات پر توجہ کی ضرورت ہے۔ ایسے میں مودی رٹی رٹائی تقریر سے عوام کا دل جیتنا چاہتے ہیں۔ مرکز میں این ڈی اے دن بہ دن سکڑتی جارہی ہے اور بہار نتائج کے بعد نتیش کمار پھر ایک قلا بازی کرسکتے ہیں۔ شیوسینا ، اکالی دل اور لوک جن شکتی نے این ڈی اے سے علحدگی اختیار کرلی ۔ الغرض بہار کے نتائج ملک میں بی جے پی اقتدار کا مستقبل طئے کرنے کی سمت پہلا قدم ہوگا۔ تیجسوی یادو کی بڑھتی مقبولیت اور راہول گاندھی کے جلسوں میں عوام کی بھاری بھیڑ اس بات کا ثبوت ہے کہ عوام اب جذباتی نعروں اور تقاریر میں لفاظی پر بھروسہ کرنے والے نہیں ہیں۔ بہار کی مہم میں امیت شاہ کی کمی بی جے پی کیلئے از خود ایک بڑا نقصان ہے جو خرابیٔ صحت کے چلتے گھر تک محدود ہوچکے ہیں۔
احسان کا بدلہ انسانیت کے ناطے احسان ہونا چاہئے لیکن اگر کوئی احسان فراموشی کر بیٹھے تو اسے ناپسندیدہ تصور کیا جاتا ہے۔ بی جے پی نے اقتدار کے معاملہ میں اپنی حلیف جماعتوں کے ساتھ اکثر احسان فراموشی کا معاملہ کیا ہے ۔ اتنا ہی نہیں گزشتہ چھ برسوں میں ملک کے عوام کے ساتھ مودی حکومت کا رویہ احسان فراموشی کی طرح رہا۔ جن رائے دہندوں نے بڑی امیدوں کے ساتھ نریندر مودی کو دوسری میعاد کیلئے اقتدار حوالے کیا، ان کے ساتھ حکومت کا رویہ افسوسناک ہے ۔ حکومت نے وعدوںکی تکمیل توکجا عوام کی بھلائی کی کوئی فکر نہیں کی ۔ نوٹ بندی سے لے کر بڑھتی مہنگائی تک ہمیشہ عوام کی مشکلات میں اضافہ ہوتا رہا۔ جب کسی شخص یا پارٹی کی عادت احسان فراموشی ہوجائے تو اس کے لئے کوئی بھی چیز معنی نہیں رکھتی۔ کشمیر اور کشمیری عوام کے ساتھ بی جے پی حکومت کا رویہ ان کے احسانات کو فراموش کرنے مترادف ہے۔ کشمیر میں قدم جمانے کیلئے پی ڈی پی سے اتحاد کیا گیا اور حکومت میں بی جے پی کا ڈپٹی چیف منسٹر تھا جبکہ آزادانہ طور پر بی جے پی کشمیر میں اقتدار کا تصور بھی نہیں کرسکتی۔ پی ڈی پی کے ساتھ اقل ترین مشترکہ پروگرام جاری کرتے ہوئے کشمیری عوام سے کئی وعدے کئے گئے لیکن جب کام نکل گیا اور کشمیر میں ہندوتوا ایجنڈہ پر عمل آوری کا وقت آیا تو نہ صرف پی ڈی پی بلکہ نیشنل کانفرنس کے ساتھ احسان فراموشی کی گئی ۔ یہ دونوں پارٹیاں بی جے پی کی حلیف رہ چکی ہیں۔ کشمیر سے خصوصی موقف سے متعلق دفعہ 370 کی برخواستگی کا زخم ابھی تازہ تھا کہ مرکز نے کشمیر کو برائے فروخت اعلان کرتے ہوئے عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کا کام کیا ہے ۔ جموں و کشمیر اراضی مالکانہ حقوق قوانین میں ترمیم کرتے ہوئے کسی بھی ہندوستانی کو کشمیر میں اراضی خریدنے کا اختیار دے دیا گیا ہے۔ دونوں مرکزی زیر انتظام علاقوں کو ہندوستانیوں کیلئے برائے فروخت کی طرح کھول دیا گیا جبکہ خصوصی موقف کے تحت غیر کشمیریوں کو اراضی خریدنے کی اجازت نہیں تھی ۔ حکومت کے اس فیصلہ نے عوام کی بے چینی میں مزید اضافہ کردیا ہے اور صورتحال سدھار کے بجائے مزید بگاڑ کی طرف جاسکتی ہیں۔ اٹل بہاری واجپائی نے کشمیریت ، جمہوریت اور انسانیت کا نعرہ لگایا تھا جس پر قائم رہنے کا امیت شاہ نے پارلیمنٹ میں اعلان کیا لیکن اراضیات کے قانون میں ترمیم کے ذریعہ کشمیریوں کے ساتھ ناانصافی کی گئی ہے۔ صورتحال کو بہتر بنانے اور عوام کو اعتماد میں لینے کا یہ طریقہ نہیں ہے۔ کشمیریوں نے مسلم اکثریت کے باوجود ہندوستان میں برقرار رہنے کا فیصلہ کرتے ہوئے ہندوستان کے حکمرانوں کے ساتھ احسان کا معاملہ کیا تھا۔ اگر وہ چاہتے تو آزاد یا پھر پاکستان میں شامل ہوسکتے تھے ۔ کشمیریوں نے ہندوستان پر جو بھروسہ کیا ، اس کا بدلہ بی جے پی حکومت احسان فراموشی کے ذریعہ چکا رہی ہے۔ عوام کو قریب کرنے کے بجائے بیگانگی اور دوری میں اضافہ کے اقدامات کئے جارہے ہیں۔ نامور شاعر ساقی امروہی نے کیا خوب کہا ہے ؎
منزلیں لاکھ کٹھن آئیں گزر جاؤں گا
حوصلہ ہار کے بیٹھوں گا تو مرجاؤں گا