حکومت لا تعلق ‘ عوام احتیاط کریں

   

ہندوستان بھر میں کورونا وباء مزید شدت اختیار کرتی جا رہی ہے ۔ مریضوں کی تعداد میں بہت تیزی کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے ۔ اموات بھی بڑھ رہی ہیں۔ قرنطینہ میں جانے والے عوام کی تعداد بھی بڑھتی جا رہی ہے اس کے باوجود ایسا لگتا ہے کہ حکومت معاشی پہلووں کو پیش نظر رکھتے ہوئے عوامی سلامتی و صحت سے عملا لا تعلق ہوگئی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہر طرح کی نرمی بتدریج دی جانے لگی ہے ۔ اب حکومت کے اعلان کے مطابق8 جون سے ملک میں عبادت گاہیں ‘ ہوٹلیں ‘ ریسٹورنٹس وغیرہ بھی کھل جائیں گے ۔ پہلے ہی تقریبا تمام بازار کھول دئے گئے ہیں۔ مائیگرنٹس کی ایک ریاست سے دوسری ریاست کو منتقلی کا عمل بھی تیز ہوگیا ہے ۔ ان ساری سرگرمیوں کے دوران کورونا انفیکشن کے پھیلنے کی رفتار بہت تیز ہوگئی ہے ۔ مریضوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے اس کے باوجود سرکاری حلقوں اور ماہرین کا یہ احساس ہے کہ کورونا ابھی ہندوستان میں عروج پر نہیں پہونچا ہے حالانکہ اب تک مریضوں کی تعداد ڈھائی لاکھ کے قریب پہونچنے لگی ہے ۔ اگر یہ بھی کورونا کا عروج نہیں ہے تو آئندہ وقتوں میں کیا صورتحال ہوسکتی ہے اس کا اندازہ کیا جاسکتا ہے ۔ یہ اندیشے ظاہر کئے جا رہے ہیں کہ مزید لاکھوں افراد کورونا سے متاثر ہوسکتے ہیں اور اموات کی تعداد بھی کئی گنا بڑھ سکتی ہے ۔ ماہرین صحت اور ڈاکٹرس کا کہنا ہے کہ حکومت نے لاک ڈاون میںنرمی دینے میں جلد بازی کا مظاہرہ کیا ہے اور جو نرمی دی جا رہی ہے وہ بھی لاک ڈاون نافذ کرنے کی طرح بالکل غیر منظم انداز میں دی جا رہی ہے ۔ اس سے حالات متلعقہ حکام کے بھی قابو سے باہر ہوگئے ہیں اور عملا یہ حکام بھی بے بس ہوتے جا رہے ہیں۔ ایسے میں عوام کی صحت کو جو سنگین خطرات لاحق ہیں وہ کم ہونے کی بجائے مزید بڑھتے جا رہے ہیں ۔ جو بازار کھولے گئے ہیں وہاں سماجی فاصلہ کا کوئی خیال نہیں رکھا جا رہا ہے ۔ ماسک کے عدم استعمال پر ایک ہزار روپئے جرمانہ کا اعلان کیا گیا تھا اس پر بھی عمل نہیں ہو رہا ہے ۔ بازاروں میں ہجوم عام بات ہوگئی ہے۔
ماہرین صحت و ڈاکٹرس کے پیش نظر یہ حقیقت ہے کہ لاکھوں مائیگرنٹس ہزاروں خصوصی ٹرینوں اور حمل و نقل کے دوسرے ذرائع استعمال کرتے ہوئے اپنے آبائی مقامات کو پہونچے ہیں اور ان کے ساتھ کورونا کی منتقلی کا سفر بھی شروع ہوگیا ہے ۔ جب ملک بھر میں معائنوں میں اضافہ کیا جائیگا تو یقینی طور پر مریضوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوگا ۔ یہ تعداد چند ہزار میں نہیں بلکہ لاکھوں میں ہوسکتی ہے ۔ ہندوستان اب متاثرین کی تعداد کے معاملہ میں اٹلی کو پیچھے چھوڑتے ہوئے چھٹے نمبر پر پہونچ گیا ہے ۔ یوروپی ممالک کی بہ نسبت ہندوستان میں اموات کی تعداد کم ہے لیکن مریضوں کی تعداد کو غیر اہم نہیں کہا جاسکتا ۔ حکومت صرف عوام کیلئے ہدایات جاری کرتے ہوئے بری الذمہ نہیں ہوسکتی ۔ اس کو عوام میں منظم انداز میںشعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے ۔ عوام کو یہ احساس دلانے کی ضرورت ہے کہ کورونا کے ساتھ زندہ رہنے کیلئے کچھ شرائط ہوسکتی ہیں۔ کچھ احتیاط لازمی ہوگئی ہے ۔ اس احتیاط کو اختیار کرتے ہوئے ہم اپنے آپ کو ‘ اپنے افراد خاندان کو اور پھر سارے سماج کو اس وائرس کا شکار ہونے سے بچا سکتے ہیں۔ اس کے پھیلاو کی جو چین ہے اس کو توڑا جاسکتا ہے ۔ شعور بیداری کے معاملہ میں حکومت نے اب تک کوئی خاص توجہ نہیں دی ہے ۔
موجودہ صورتحال میں اب عوام کو ہی اپنے طور پر احتیاط کو ملحوظ خاطر رکھنے کی ضرورت ہے ۔ جو ہدایات اور احتیاطی تدابیر ماہرین ‘ ڈاکٹرس اور حکومتوں کی جانب سے دی جا رہی ہیں ان پر پوری طرح سے عمل آوری کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس بات کو ذہن نشین رکھا جانا چاہئے کہ ہر کوئی خود کو محفوظ رکھتے ہوئے اپنے سارے خاندان کو محفوظ رکھ سکتا ہے اور اس طرح سارے معاشرہ کو محفوظ کیا جاسکتا ہے ۔ اس کے پھیلاو کو روکنے کیلئے اب صرف حکومتوں کے اقدامات پر انحصار کرنے کی بجائے اپنے طور پر بھی سنجیدگی اور شعور کا مظاہرہ کیا جانا چاہئے ۔ عوام اپنے آپ کے تئیں ‘ اپنے خاندان کے تئیں اور سارے سماج کے تئیں اپنی ذمہ داری کو سمجھیں اور احتیاط لازمی اختیار کرتے ہوئے اس خطرناک وباء کو مزید پھیلنے سے روکیں۔
معاشی سرگرمیوں کی بحالی
حکومت نے چار مراحل کے لاک ڈاون کے بعد عملا ان لاک 1 کا اعلان کیا ہے ۔ اس کا مقصد معاشی سرگرمیوں کو بحال کرنا ہے ۔ کورونا لاک ڈاون کی وجہ سے معیشت جو تباہ ہوئی ہے اس کو بحال کرنا ضروری ہے لیکن اس سلسلہ میں احتیاط کے تقاضوں کو بھی پورا کیا جانا چاہئے ۔ جس طرح وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا تھا کہ جان ہے تو جہان ہے اس جملے پر عمل آوری کی اب زیادہ ضرورت ہے ۔ بازاروں اور فیکٹریوں کو کھول کر کچھ شرائط عائد کی گئی ہیں اور ضرورت اس بات کی ہے کہ ان شرائط پر عمل آوری کو یقینی بنایا جائے ۔ نگرانی کے عمل کو سخت کیا جائے ۔ معاشی سرگرمیوں کو پوری طرح سے ٹھپ نہیں کیا جاسکتا اور یہ سرگرمیاں اس لئے بھی ضروری ہوگئیں کہ حکومت راحت و امداد پہونچانے کے معاملے میں عوام کی توقعات پر پورا نہیں اترسکی ہے ۔ خود تاجرین ‘ مالکین ‘ دفاتر وغیرہ کے ذمہ داران کو بھی چاہئے کہ وہ کام کاج کی بحالی کے ساتھ اپنے ملازمین اور ورکرس کی حفاظت کو بھی یقینی بنائیں۔ صورتحال کو سنگین ہونے سے بچانے کیلئے قبل از وقت احتیاط ہی واحد راستہ ہے کیونکہ اگر صورتحال مزید ابتر ہوجاتی ہے تو پھر اس کو قابو میں کرنا کسی کے بس کی بات نہیں رہ جائے گی ۔