حیدرآباد میں معمولی بخار یا ناسازی صحت پر علاج مشکل

   

خاتون کو بروقت طبی علاج نہ ملنے سے موت ، شوہر کی دوڑدھوپ ناکام ثابت، سرکاری و خانگی دواخانوں کی لاپرواہی

حیدرآباد ۔ شہر میں ان دنوں معمولی بخار یا پھر صحت کی ناسازی بالخصوص موسمی بخار کا علاج ناممکن ہوگیا ہے۔ کوویڈ۔19 کے حالات اور اس تعلق سے سرکاری اور خانگی دواخانوں کا رویہ مریضوں کے علاج سے قبل ان کی موت کا سبب بن رہا ہے۔ کوویڈ۔19 کا شبہ ظاہر کرتے ہوئے بغیر جانچ و تشخیص کے علاج کرنے سے صاف طور پر انکار کردیا جارہا ہے۔ کوویڈ۔19 سے پیدا شدہ حالات اور ہاسپٹلس کا رویہ متوسط و غریب خاندانوں کیلئے وبال جان بن گیا ہے۔ شہرمیںہر دن کسی نہ کسی شہری کو ایسی مشکل و ناقابل بیان حالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ پریشانی کے عالم میں مریض کو ایک دواخانے سے دوسرے دواخانہ علاج کیلئے لیکر گھومنا اس دردناک اور کربناک حالات سے ہر کوئی اللہ کی پناہ مانگتا ہے۔ تاہم چند ایک واقعات ہی منظرعام پر آرہے ہیں۔ کوویڈ۔19 کے ان مشکل حالات میں خانگی تو خانگی سرکاری دواخانے بھی ظالمانہ رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں۔ اس طرح کے ایک واقعہ میں سریکانت نامی شخص نے اپنی بیوی کو کھودیا۔ معمولی بخار اور سردی کھانسی پر ہاسپٹل سے رجوع ہونا اس کیلئے ایک مشکل عمل تھا اور وہ شاید زندگی بھر اس صدمہ سے باہر نہیں آئے گا۔ عطاپور علاقہ کا ساکن یہ شخص پیشہ سے بی ایس این ایل کا ملازم ہے۔ 17 جون کی رات وہ اس کی بیوی کو لیکر ایک کارپوریٹ ہاسپٹل سے رجوع ہوا۔ اس شخص کی بیوی کو سانس لینے میں تکلیف ہورہی تھی اور وہ بہت زیادہ پریشان تھا۔ اس شخص کے مطابق پہلے اس نے سن شائن ہاسپٹل کا رخ کیا جہاں اس شخص کو داخلہ سے منع کردیا گیا۔ تاہم عاجزی و منت سماجت کے بعد کچھ دیر آکسیجن دینے کے بعد اسے روانہ کردیا گیا اور آکسیجن بھی اس شرط پر دی گئی کہ وہ فوری اس کی بیوی کو لیکر روانہ ہوجائے جس کے بعد اس نے اپولو۔ کیئر اور ویرنچی ہاسپٹل کا رخ کیا۔ تاہم سب نے ایک ہی جواب دیا کہ مریض کا علاج نہیں کیا جاسکتا ہے۔ حکومت کی اجازت ہیں چونکہ مریض میں کوویڈ۔19 کی علامتیں پائی جاتی ہیں جبکہ اس شخص کے مطابق اس کی بیوی کا کوئی ٹسٹ نہیں کیا گیا تھا۔ اس شخص نے گاندھی ہاسپٹل سے رجوع ہوا۔وہاں داخلہ سے بھی انکار کردیا گیا جس کے بعد کنگ کوٹھی ہاسپٹل میں اس شخص کے ساتھ دشمنوں جیسا سلوک کیا گیا۔ کوئی اس کی بات سننے تیار نہیں تھا جس کے بعد اس نے عثمانیہ جنرل ہاسپٹل کا رخ کیا جہاں ڈاکٹرس نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی۔ اس نے خود وہیل چیئر کا انتظام کیا اور ایمرجنسی میں جانے کے بعد پیرامیڈیکل اور ڈاکٹرس کی موجودگی میں خود اپنی بیوی کو آکسیجن لگایا۔ ان حالت سے تنگ ہوکر اس نے اپنے قریبی ساتھی کی مدد سے کوکٹ پلی کے خانگی ہاسپٹل پہنچا جہاں اس کی بیوی کو علاج کیلئے ہاسپٹل میں لیا گیا لیکن تھوڑی دیر بعد یہ کہتے ہوئے گاندھی ہاسپٹل جانے کا مشورہ دیا گیا کہ اس مریض میں کوویڈ۔19 کی علامتیں پائی جاتی ہیں جس کے بعد بڑی مشکل سے سریکانت گاندھی پہنچا۔ اس وقت تک اس کی بیوی کی صحت کافی بگڑ چکی تھی اور فوت ہوگئی۔ اس نے 2 لاکھ روپئے ادا کرنے کی بھی خانگی دواخانے کو پیشکش کی لیکن کسی نے علاج نہیں کیا۔ سریکانت سرکاری شرائط اور پابندیوں کو اس کی بیوی کی موت کی وجہ بتاتا ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ علاج کو آسان بنانے کے اقدامات کرتے ہوئے اس مشکل دور میں عوام کے ساتھ ہونے کا احساس دلائے۔