خشوگی کی منگیتر نے سعودی ولی عہد ایم بی ایس کے لئے سزا کی مانگ کی

,

   

استنبول۔متوفی صحافی جمال خشوگی کی ترکی والی منگیتر نے پیر کے روز سعودی ولی عہد محمد بن سلمان بن عبدالعزیز السعود کو مذکورہ قتل پر ”کسی تعطل کے بغیر سزا“ دینے کی مانگ کی ہے۔

منگیتر ہتیکا چنگیز کے جاری کردہ ایک بیان کے حوالے سے بی بی سی نے کہاکہ ”یہ ضروری ہے کہ مذکورہ ولی عہد کوجس نے ایک بے قصور معصوم کے قتل کا حکم دیاتھا بغیر کسی تعطل کے سزا دی جانی چاہئے۔

اس سے نہ صرف ہم جو مانگ کررہے ہیں وہ انصاف ملے گا بلکہ مستقبل میں اس طرح کے واقعات کو روکا جاسکے گا۔اگر ولی عہد کو سزا نہیں دی جائے گی‘ تو یہ ہمیشہ کے لئے افسوسناک ہوگا اورہماری انسانیت پر ایک بدنما داغ رہے گا“۔

ترکی سے تعلق رکھنے والے ایک نصابی محقق چنگیز نے اپنے بیان میں عالمی قائدین سے ایک اپیل بھی جاری کی ہے کہ ولی عہد سے دوری اختیار کریں اور مملکت پر تحدیدات عائد کریں۔

بیان میں انہوں نے کہاکہ ”امریکی صدر (جوبائیڈن)سے شروع کرتے ہوئے دنیا کے تمام قائدین کے لئے یہ ضروری ہے کہ اگر وہ ہاتھ ملانے سے کے لئے تیار ہیں تو خود سے استفسار کریں۔

میں ہر کسی پر زوردے رہی ہوں کہ اپنے دلوں پر ہاتھ او رولی عہد کو سزا دلانے کی مہم کریں“۔

تین دنوں کے بعد چنگیز کا بیان سامنے آیا جب امریکی کے غیر اعلانیہ امریکی انٹلیجنس رپورٹ میں فبروری26کے روز اس بات کا گمان کیاتھا کہ ولی عہد نے ”پکڑو او رمارو“ اپریشن کے لئے سعودی خشوگی کا2018میں قتل کو منظوری دی تھی۔

ڈائرکٹرنیشنل انٹلیجنس (او این ڈی ائی) کے دفتر کی جانب سے جاری کردہ مذکورہ رپورٹ میں کہاگیاہے کہ ”سعودی ولی عہدمحمد بن سلمان نے استنبول‘ ترکی میں ایک اپریشن کو منظوری دی تھی اس بات تک رسائی کی ہے‘ تاکہ سعودی کے صحافی جمال خشوگی کو پکڑو اورقتل کردیاجائے“۔ سعودی عربیہ نے اس رپورٹ کو مسترد کردیاہے۔


خشوگی کا قتل
خشوگی مذکورہ 59سالہ معروف صحافی جو افغانستان میں سویت مداخلت اور القاعدہ کے متوفی لیڈر اسامہ بن لادن کواجاگر کرنے کے لئے جانے جاتے ہیں کو اس وقت سعودی ایجنٹوں نے قتل کردیاتھا جب وہ استنبول میں مملکت کے سفارت خانہ میں 2اکٹوبر2018کو ائے تھے تاکہ چنگیز سے شادی کے لئے درکاری احکامات پر مشتمل پیپرس حاصل کرسکیں۔

بی بی سی کی رپورٹ کے بموجب اپنی جانچ میں مذکورہ سعود ی پبلک پراسکیوٹر نے بات کو یہ کہتے ہوئے ختم کردی تھی کہ مذکورہ قتل منصوبہ بند نہیں ہے۔

اس میں کہاگیاکہ قتل کے احکامات ”بات چیت کرنے والی ٹیم“ کے ایک سربراہ نے دی تھی جنھیں خشوگی کو استنبول سے مملکت واپس لانے کے لئے روانہ کیاگیاتھا”تاکہ اس کے خلاف کاروائی کی جاسکے“ یا اگر وہ راضی نہیں ہوئے تو ”زبردستی واپس“ لایاجائے۔

اس تاریخ سے متوفی صحافی کے باقیات اب تک لاپتہ ہیں۔پچھلے سال ڈسمبر میں ریاض کی کریمنل کورٹ نے متوفی کے قتل میں راست طور پر حصہ لینے اوراس جرم کے ارتکاب میں پانچ لوگوں کو سزائے موت سنائی“ وہیں تین دیگر لوگو ں ”اس جرم کو چھپانے اور قوانین کی خلاف ورزی کرنے“ کے الزام میں 24 ّسالو ں کی قیدکی سزا سنائی۔

مگر سرکاری ذرائع ابلاع نے پچھلے ماہ خبر دی تھی کہ پانچ لوگ جنھیں سزائے موت سنائی گئی تھی انکی سزا کو 20سال قید کی سزا میں تبدیل کردیاگیاہے۔ مذکورہ ولی عہد نے اس قتل میں ملوث ہونے سے انکار کیاہے