خوبصورت بدلہ میری پیاری زرینہ!

   

ممتاز جہاں
آج جب اُنھوں نے تمہارا نام لیا تو شدت سے تم مجھے یاد آگئیں۔ زرینہ وہ بھی کیا دن تھے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے اُس دن جبکہ موسم بڑا ہی سہانا تھا، آسمان کو کالے کالے بادلوں نے اپنی آغوش میں چھپا رکھا تھا۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں۔ ہر طرف بہار ہی بہار تھی۔ ایسے وقت جب میں تمہارے پاس پہنچی تو تم کھل اُٹھیں تھیں ابھی ہم اندر جا ہی رہے تھے کہ رِم جھم رِم جھم بارش شروع ہوگئی۔ ہم دونوں کو ہی ایسا موسم پسند تھا، ہم شاید اور وہیں ہلکی ہلکی پھوار کے مزے لوٹتے لیکن تمہاری امی نے اندر بلالیا۔
اب ہم لوگوں کی باتیں شروع ہوگئی تھیں کہ تمہاری امی نے پھر تمہیں پکارا اور تم بُرا سا منہ بناکر چلی گئیں اور میں مسکراتی رہ گئی لیکن تھوڑی ہی دیر میں تم آئیں تو تمہارا چہرہ پھول کی طرح کِھلا ہوا تھا۔ تم نے بغیر کچھ کہے کہ میرا ہاتھ پکڑا اور ڈرائنگ روم میں لے کر آگئیں اور میں … میں نے جیسے ہی اندر قدم رکھا میرے ماتھے پر پسینہ آگیا۔ تم آگے بڑھیں اور میں جہاں تھی وہیں رہ گئی۔ پھر تم نے میرا ہاتھ پکڑ کر اپنی طرف گھسیٹ لیا، میرا شرم کے مارے بُرا حال تھا، دل ہی دل میں تمہاری اس حرکت پر غصہ آرہا تھا، پھر تم نے تعارف کرایا کہ وہ صاحب تمہارے ابا کے دوست کے لڑکے ہیں جو ڈاکٹری پڑھ رہے ہیں اور اب صرف ایک سال باقی ہے جن کا نام اقبال احمد ہے۔ مجھے اس کا نام بہت پسند آیا تھا اور میں بار بار ان کی موہنی سی صورت دیکھنے کے لئے اپنی پلکیں اُٹھاتی تو اُنھیں اپنی جانب دیکھتا پاکر پلکیں جھپکانا شروع کردیتی۔اُسی وقت تم کو چائے کی یاد آگئی اور تم ابھی آئی کہہ کر چلی گئیں۔ میرا دل چپکے ہی کے دھڑکنے لگا، کچھ دیر خاموشی رہی اور پھر اُنھوں نے ہی پہل کی۔
یہ خاموشی کہاں تک لذتِ فریاد پیدا کر
اور باوجود اتنی سردی کے میں پسینہ میں تر ہوگئی۔ اُنھوں نے اپنا رومال پیش کردیا، بدقسمتی سے اُس وقت میں اپنا رومال تمہارے کمرے میں ہی چھوڑ دیا تھا۔ ابھی میں ہچکچارہی تھی کہ اُنھوں نے پھر اصرار کیا اور میں انکار نہ کرسکی۔ جب تم آئیں تو میرے ہاتھ میں ان کا رومال دیکھ کر معنی خیز انداز میں اقبال کی طرف دیکھنے لگیں۔ مجھے بڑی ہیبت ہورہی تھی، نجانے وہ کتنی دیر بیٹھے رہے، میں تو صرف بت بنی خاموش بیٹھی تھی اور تم ہنس ہنس کر اُن سے باتیں کررہی تھیں پھر میں اُس وقت چونکی جب اُنھوں نے تم سے جانے کی خواہش ظاہر کی اور تم میری جانب عجیب نظروں سے دیکھ کر بیزارگی کے سے انداز سے امی کو بلانے کے لئے اُٹھ گئیں۔ اور پھر میری نگاہیں اُن کی نگاہوں سے ٹکرا گئیں۔ اُنھوں نے خاموشی کو توڑتے ہوئے کہا ’’پھر کب ملاقات ہوگی…‘‘ میں دل ہی دل میں ہنس پڑی کہ ایک ہی نظر میں بے چارے… مگر پھر تمہارے خیال سے میرے بدن میں جھرجھری سی پیدا ہوگئی‘‘۔ مجھے اُمید ہے کہ جلد ہی آپ ملاقات کا موقع دیں گی۔ مجھے ان کے دیوانے پن پر ہنسی آگئی۔ جان نہ پہچان بھلا میں کیسے ملاقات کا موقع دیتی! اتنے میں تم اور امی آگئیں اور وہ سب کو سلام کرکے رخصت ہوگئے۔ میں نے بھی تھوڑی دیر بعد اجازت چاہی، تم نے چوٹ کی ’’کیا صرف اقبال سے ملنا تھا…‘‘ میں تڑپ کر رہ گئی۔ واہ تم ہی تو لے کر گئی تھیں، مجھے غصہ آگیا۔ لیکر گئی تھی لیکن مجھے کیا معلوم تھا کہ تم اپنی عزیز سہیلی کو دھوکہ دوگی۔ مجھے ایسا مت سمجھو زرینہ، میں بلک اُٹھی۔ میں اُسی وقت گھر آگئی پھر تم نے مجھ سے بولنا بند کردیا۔ مجھے اپنے آپ پر غصہ آرہا تھا کہ خوامخواہ میں نے اپنی دوست سے جھگڑا مول لیا۔
کچھ دن بعد معلوم ہوا کہ تمہاری طبیعت خراب ہے، میں رہ نہ سکی اور تم سے ملنے تمہیں دیکھنے آگئی اور پھر تمہاری تیمارداری کرنے لگی۔ اقبال روز تمہاری مزاج پرسی کے لئے آتے اور گھنٹوں مجھ سے باتیں کرتے۔ میری خاموشی سے فائدہ اُٹھاکر ایک دن اُنھوں نے اپنی محبت کا اظہار کردیا میں غصہ میں بپھر اُٹھی، آپ کو شرم آنی چاہئے کہ آپ اپنی منگیتر کی سہیلی سے ایسی باتیں کرتے ہیں۔ زرینہ کا حال دیکھئے ہر وقت اس کی زبان پر آپ کا نام رہتا ہے، بے ہوشی میں بھی کئی بار آپ کا نام لے چکی ہے۔ آپ نے اُس سے منہ موڑ لیا۔ کل مجھ سے منہ موڑ لیں گے اور نکل پڑیں گے کسی اور کی تلاش میں۔ یہ مرد ہوتے ہی ایسے ہیں‘‘۔ اُنھوں نے کئی بار مجھے ٹوکنا چاہا مگر میں نہیں رُکی، جذبات کی رو میں کہتی گئی اور پھر اُنھوں نے بولنا شروع کردیا کہ ’’آپ نے مجھے غلط سمجھا میں نے آج تک کسی سے محبت نہیں کی، زرینہ کرتی ہوگی مگر میں نے ہمیشہ اُسے ایک دوست سے زیادہ نہیں سمجھا۔ میں نے پہلی اور آخری بار صرف ایک ہی لڑکی سے محبت کی ہے جو … جو اس وقت میرے سامنے بیٹھی ہوئی ہے‘‘۔ ان کا لہجہ بڑا پُرسکون تھا۔ مجھے دل ہی دل میں زرینہ پر غصہ آرہا تھا۔ کتنی بھولی تھی زرینہ۔ یک طرفہ پیار کر بیٹھی۔
تم نے شاید ہماری تمام باتیں سن لی تھیں کیوں کہ جب میں تمہارے کمرے میں آئی تو تمہارا سانس پھول رہا تھا اور ایسا محسوس ہورہا تھا کہ تم مجھے دور سے آتا ہوا دیکھ کر جلدی سے پلنگ پر لیٹ گئی ہو۔ اُف شرم کے مارے میرا بُرا حال تھا اور میں تم سے برابر آنکھیں چُرا رہی تھی۔ جب تم اچھی ہوگئیں تو میں نے آنا جانا بند کردیا۔ تم ہر خط میں اقبال کا ذکر کرتیں۔
ایک سال بعد جب اقبال نے اپنا امتحان کامیاب کرلیا ان کے والد نے شادی کی جلدی کی مگر تم نے صاف انکار کردیا۔ مجھے حیرت بھی ہوئی اور افسوس بھی کہ ایک دوست کی خاطر تم نے اپنی محبت قربان کردی۔ مجھے رہ رہ کر ملال ہورہا تھا کہ کاش میں اُس دن اقبال کے سامنے کمرے میں گئی نہ ہی ہوتی۔
جب بہت دن ہوگئے تو تم ہی میرے گھر آئیں۔ ہم دونوں کمرے میں بیٹھے باتیں کررہے تھے کہ اچانک میرے بھیّا کمرے میں آگئے۔ شاید وہ مجھے تلاش کررہے تھے۔ انھیں معلوم ہی نہیں تھا کہ تم میرے پہلو میں بیٹھی ہو اور پھر وہ تمہاری موہنی صورت پر فدا ہوگئے۔ میں نے بھی بدلہ لینے کی غرض سے اُنھیں کھینچ کر اندر بلالیا اور تم کو جیسے سانپ سونگھ گیا تھا میں بیٹھی تم دونوں کو چھیڑ رہی تھی۔پھر ایک دن تمہارے ابا اپنے دوست کے بیٹے اقبال کے لئے ہمارے گھر آئے اور مجھے مانگ لیا۔ تم شادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی تھیں اور مجھے اقبال کا نام لے کر چھیڑے جارہی تھیں۔ پھر سنگھار کے بعد تم نے مجھے آئینہ دکھایا تو میں اپنا حُسن دیکھ کر حیران رہ گئی۔ پھر ڈھولک کے گیت اور باجوں کے شور میں میری سسکیاں اُبھرنے لگیں اور میں اقبال کی ہوگئی۔
آج بیٹھے بیٹھے ہی اقبال نے تمہارا نام لیا جانتے ہو کیوں پہلے مٹھائی کھلاؤ تو کہوں۔ جانتی ہو آج کل میرے بھیّا اُداس رہنے لگے ہیں ہر وقت ٹھنڈی آہیں بھرتے رہتے ہیں جب بھی میں وہاں جاتی ہوں یہی حالت رہتی ہے ہر بار تمہارے بارے میں پوچھتے رہتے ہیں۔ مگر یہ خط تمہیں ملنے سے پہلے ہی میرے ابا تمہارے گھر تمہارے ابا سے ملنے جانے والے ہیں تاکہ اپنے بیٹے کو تمہارے ابا کی فرزندی میں دے دیں۔ ارے شرماگئی۔ پگلی کہیں کی۔ کیا اب بھی مٹھائی نہیں کھلاؤ گی تم۔ لے لیا نا میں نے تم سے خوبصورت بدلہ میری بھابی … اچھا خدا حافظ
اقبال سلام و مبارکباد کہہ رہے ہیں۔