دروپدی مرمو کا انتخاب بی جے پی کا ماسٹر اسٹروک یا مجبوری

   

عامر علی خاں
نیوز ایڈیٹر سیاست
اوڈیشہ کے سنتالی قبائیلی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی 64 سالہ دروپدی مرمو ملک کی 15 ویں صدرجمہوریہ ہوں گی۔ ایک پسماندہ قبائیلی خاتون کو اس عہدہ جلیلہ پر فائز کرنے کے پیچھے کیا اغراض و مقاصد کارفرما ہیں ، اس بارے میں ہمارے ملک کی سیاسی جماعتیں، تہذیبی و ثقافتی اور مذہبی تنظیمیں ، دانشور، ماہرین تعلیم، ادیب، شعراء اور صحافی اچھی طرح جانتے ہیں۔ انہیں ، دروپدی مرمو کو صدرجمہوریہ بنانے سے متعلق بی جے پی اور اس کی سرپرست آر ایس ایس کی نیت و اِرادوں سے بھی اچھی طرح واقفیت ہے۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) ’’برہمنوں کے زیراثر پارٹی‘‘ کی حیثیت سے جانی جاتی ہے اور سنگھ پریوار میں ایسے عناصر کی کمی نہیں جو درج فہرست طبقات و قبائل کو کوئی اہمیت نہیں دیتے۔ ان کی نظروں میں ’’دلت‘‘ انسان ہی نہیں ہوتے حالانکہ انسان چاہے وہ کسی بھی مذہب، ذات ، رنگ و نسل یا علاقہ سے کیوں نہ تعلق رکھتا ہو، انسان ہی ہوتا ہے اور جو لوگ انسان کو انسان نہیں سمجھتے ہیں تو اصل میں ایسے لوگ ہی انسان کہلانے کے قابل نہیں ہوتے۔ اس لئے کہ انسانیت سب سے بڑی چیز ہے۔ بہرحال دروپدی مرمو کو صدرجمہوریہ بنانے کے پیچھے کارفرما عناصر کے کچھ بھی مقاصد اور ارادے ہوں، ایک بات تو ضرور کہی جاسکتی ہے کہ دروپدی مرمو نے ایک تاریخ رقم کی ہے۔ ایک ایسی تاریخ جس پر اعلیٰ ذات سے تعلق پر فخر کرنے والے شاید چراغ پا ہوں گے، لیکن انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ قدرت کے بھی عجیب کھیل ہوتے ہیں۔ کل تک جنہیں لوگ ذات پات کے نام پر انسان سمجھنے سے بھی گریز کیا کرتے تھے، آج اُن ہی کے ہاتھوں دلتوں اور قبائیلیوں کے سروں پر تاج سجائے جارہے ہیں۔ قدرت نے ، حسب نسب اور خود ساختہ اعلیٰ ذات پر فخر کرنے والوں کو اس بات کیلئے مجبور کردیا ہے کہ وہ ایک دلت صدر، ایک دلت چیف منسٹر ، ایک دلت گورنر ، ایک دلت مرکزی وزیر اور دلت اعلیٰ عہدیدار کے سامنے بڑے احترام و وقار کے ساتھ ہاتھ باندھے کھڑے رہیں۔ ان کی آمد کا انتظار کرتے ہوئے ان کا خیرمقدم کریں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ صدرجمہوریہ کے انتخاب میں اوڈیشہ کے دُور افتادہ میں گاؤں کی رہنے والی دروپدی مرمو کو اپنا امیدوار بنانا دراصل بی جے پی کی ایک مجبوری تھی، جسے اس کے لیڈروں نے ’’ماسٹر اسٹروک‘‘ کا نام دیا جبکہ انہیں خود پتہ ہے کہ یہ ماسٹر اسٹروک تھا یا سیاسی مجبوری۔ اپوزیشن امیدوار یشونت سنہا کے مقابلے دروپدی مرمو کو میدان میں اُتارنے کا فیصلہ کرنا اور پھر اس باوقار عہدہ پر انہیں فائز کروانا ، حقیقت میں دیکھا جائے تو معمار دستور ہند ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کی اُن کوششوں اور جدوجہد اور خوابوں کا نتیجہ ہے جو انہوں نے دلتوں کو معاشرہ میں حقیقت میں ایک انسان کا درجہ دلانے ، انہیں ترقی کی راہ پر گامزن کرنے اور انہیں اعلیٰ دستوری عہدوں پر فائز کرنے کیلئے دیکھا تھا۔ دلتوں کے ساتھ اعلیٰ ذات کے ناروا بلکہ غیرانسانی سلوک سے مایوس ہوکر بیرسٹر بی آر امبیڈکر نے اپنے پیدائشی مذہب ’’ہندومت‘‘ کو ترک کرتے ہوئے ’’بدھ مت ‘‘ اختیار کرلیا۔ ہندوستان کی تاریخ اُس منظر کا بڑی ہی دلچسپی اور انہماک سے مشاہدہ کررہی تھی جب 14 اکتوبر 1956ء کو صرف ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر ہی نہیں بلکہ ان کے 3,65,000 دلت حامیوں نے ذات پات کی زنجیروں کو توڑتے ہوئے ’’بدھ مت‘‘ اختیار کرلیا۔ تاریخ کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے ملک کے اعلیٰ دلت ذہنوں نے بابا صاحب امبیڈکر کے ہندومت کو چھوڑ کر بدھ مت اختیار کرنے کی وجہ ہندوازم کا ورنا سسٹم بتایا۔ ان کے خیال میں ڈاکٹر امبیڈکر نے ہندوازم کے ورنا سسٹم کے خلاف مذہب تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا۔ وہ اس بات کو بھی لے کر کافی مغموم رہا کرتے تھے کہ ملک میں دلتوں و قبائیلیوں کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔ ان سے سماجی، معاشی، مذہبی اور سیاسی سطحوں پر امتیاز برتا جاتا ہے۔ اعلیٰ ذات کے گھرانوں اور مذہبی مقامات کے دروازے ان کیلئے بند رہتے ہیں۔ کوئی دلت کسی برہمن کے سامنے ٹھہر نہیں سکتا، کرسی پر بیٹھ نہیں سکتا، اس کے ساتھ ہم طعامی کا شرف حاصل نہیں کرسکتا، حد تو یہ ہے کہ اُن باؤلیوں سے پانی بھی نہیں لے سکتا جہاں سے برہمن اور دیگر اعلیٰ ذات کے ہندو اپنی آبی ضروریات کی تکمیل کیا کرتے تھے۔ اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنا، دلت، بچوں کیلئے ایک آزمائشی مرحلہ ہوتا تھا۔ ہمارے ملک میں کئی ایسی عظیم شخصیتیں منظر عام پر آئیں جو تعلیم کے شوق میں اسکولوں میں کلاسیس کے باہر ٹھہرے علم کی پیاس بجھاتی، تب کہیں جاکر ان میں سے کوئی ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر بن پاتا۔ آج دروپدی مرمو کا عہدہ صدرجمہوریہ کیلئے انتخاب یقینا مسرت کی بات ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ان کے انتخاب کے پیچھے کئی سیاسی مقاصد کارفرما ہیں۔ ویسے بھی کے آر نارائنن کی شکل میں کانگریس نے ہندوستان کو پہلا دلت صدرجمہوریہ دیا تھا۔ بعد میں بی جے پی کی زیرقیادت مودی نے رام ناتھ کووند جیسے دلت لیڈر کو عہدہ صدرجمہوریہ پر فائز کیا۔ کانگریس نے صدرجمہوریہ کے عہدہ پر پہلی مرتبہ ایک خاتون (پرتبھا پاٹل) کو فائز کیا تھا۔ اس طرح دروپدی مرمو کو جہاں پہلی قبائیلی خاتون صدر ہونے کا اعزاز حاصل ہورہا ہے، وہیں وہ دوسری خاتون صدر بھی ہوں گی۔ یقینا دروپدی مرمو کو اپنی 64 سالہ زندگی میں کئی ایک مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کے والد اور دادا اپنے قبائیلی گاؤں کے سرپنچ تھے جس کا اثر دروپدی پر بھی پڑا اور انہوں نے 1997ء میں کونسلر کی حیثیت سے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز کیا۔ اُنہیں سال 2000ء میں اڈیشہ کی کابینہ میں وزیر بنایا گیا اور پھر 2010ء میں مودی حکومت نے انہیں جھارکھنڈ کی گورنر بنادیا۔ انہوں نے اوڈیشہ حکومت کے محکمہ آبپاشی و بجلی میں جونیر اسسٹنٹ کی حیثیت سے خدمات انجام دی۔ بطور ٹیچر بھی کام کیا۔
واضح رہے کہ قبائلی ملک کی آبادی کا 8.6 فیصد حصہ ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ دروپدی مرمو کے عہدہ صدر جمہوریہ پر فائز ہونے سے قبائلیوں کی حالت زار میں تبدیلی آتی ہے یا نہیں۔ ان کے گاؤں بجلی سے منور ہوتے ہیں یا نہیں کیونکہ آزادی کے 75 سال بعد چند دن قبل ہی مرمو کے گاؤں میں بجلی پہنچائی گئی۔ قبائلیوں کی زمینات چھیننے کا سلسلہ ختم ہوتا ہے یا نہیں ؟ یا پھر جس طرح دلت صدر رام ناتھ کوئند کے ذریعہ بی جے پی نے اپنے ایجنڈہ کے مطابق زائد از 203 بلز کو قانونی شکل دلائی (جن میں کچھ مسلم اقلیت کے خلاف تھے) اس طرح آیا وہ مرمو سے قبائلیوں اور دلتوں کو فراہم کئے جانے والے تحفظات برخواست کروانے کا بل منظور کروائے گی؟ اگر بی جے پی 8.6 فیصد آبادی والے قبائلیوں میں سے ، ایک کو صدر بناسکتی ہے تو کیا 14 فیصد آبادی رکھنے والے مسلمانوں میں سے کسی کو نائب صدر جمہوریہ کیلئے نامزد نہیں کیا جاسکتا تھا ۔ اگر دیکھا جائے تو بی جے پی کا اب ایک بھی مسلم رکن پارلیمنٹ نہیں ۔ لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں بی جے پی کا کوئی مسلم رکن نہیں ہے جبکہ ملک کے 4120 ارکان اسمبلی میں سے تقریباً 260 ارکان اسمبلی مسلم ہیں، ان میں سے صرف دو تین ارکان بی جے پی سے تعلق رکھتے ہیں ۔ کیا یہ ملک کی سب سے بڑی اقلیت کے ساتھ تعصب ،بغض اور امتیاز نہیں ؟