دعاء میں صیغہ کی تبدیلی

   

سوال : ایک محلہ مسجد کے امام صاحب اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے پانچوں وقت کی نماز پڑھاتے ہیں۔ رہا سوال یہ کہ قرآن پاک میں لَآ اِلٰـهَ اِلَّآ اَنْتَ سُبْحَانَكَ ۖ اِنِّـىْ كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِيْنَ۔ لکھا ہے۔ لیکن مسجد کے امام صاحب نماز کے بعد دعا کرتے وقت لا الہ الا انت سبحنک انا کنا من الظلمین پڑھتے ہیں۔ ان دونوں دعاؤں میں کونسی دعا پڑھنا درست ہے۔ براہ کرم شرعی طور پر اس مسئلہ کا درست حل دیجئے مہربانی ہوگی ؟
جواب : ’’ اِنِّـىْ كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِيْنَ‘‘ میں ’’ اِنِّـىْ كُنْتُ ‘‘ واحد متکلم کا صیغہ ہے جس کے معنی میں اپنے نفس پر ظلم کرنے والوں میں سے ہوں اور ’’ انا کنا ‘‘ کے ساتھ پڑھیں تو اس وقت معنی یہ ہوں گے کہ ہم اپنے نفسوں پر ظلم کرنے والے ہیں۔ امام صاحب دعاء میں ’’ انا کنا ‘‘ پڑھتے ہیں تو مصلیوں کو اس میں شامل کرتے ہوئے جمع کا صیغہ پڑھتے ہیں جو کہ درست ہے اور اگر قرآن میں جو الفاظ واحد متکلم کے ساتھ آئے ہیں اس سے بھی پڑھ سکتے ہیں۔ جب قرآنی آیت میں واحد متکلم کے صیغہ کو جمع کے ساتھ بطور دعاء پڑھتے ہیں اور مصلیوں کو شک و شبہ پیدا ہورہا ہے تو بہتر یہی ہے کہ قرآنی آیت کو بلفظہ پڑھا جائے۔
مولانا سید شاہ احمد اﷲ باجنی قادری

حضرت سید شاہ اسداﷲ باجنی ؒ
حضرت سید شاہ اسداﷲ باجنی قادری چشتی شطاری رحمۃ اللہ علیہ برہانپور میں پیدا ہوئے ۔ بچپن ہی میں والدہ محترمہ کا وصال ہوگیا۔ آپؒ کے والد بزرگوار نہایت متقی و عبادت گذار و باکمال بزرگ تھے ۔ آپؒ کی ابتدائی تعلیم والد بزرگوار و پیر حضرت سیدنا شیخ سعداﷲ ؒ نے دی ، اُس کے بعد علماء سے ظاہری علوم کا تکمیلہ فرمایا ۔ آپؒ بچپن سے ذہین اور بزرگوں کی صحبت و خدمت میں لگے رہتے ، اُن کے ارشادات کو پوری توجہ سے دل نشین کرلیتے ۔ اپنے والد و پیر کی خدمت میں ہمیشہ رہتے ۔ آپؒ کو کم عمری ہی میں والد بزرگوار نے سلسلہ چشتیہ و شطاریہ میں بیعت لیکر کچھ دن بعد خلافت سے سرفراز فرمایا ۔ دیڑھ سال بعد آپؒ کے والد کا وصال ہوگیا ۔اکثر مزار شریف پر ہی مراقبہ و مکاشفہ میں رہتے ۔ کچھ عرصہ بعد برہانپور سے ارکاٹ پہنچے پھر حیدرآباد دکن تشریف لاکر محلہ حسینی علم کی بڑی مسجد میں جو آجکل مسجد حضرت ابوالحسنات سید عبداﷲ شاہ نقشبندیؒ سے موسوم ہے ، قیام فرماکر بندگانِ خدا کو اﷲ کی طرف توجہ دلانا شروع فرمایا ۔ آپؒ قرآن و حدیث اور حقائق و معارف کا درس دیتے ۔ آپؒ مسئلہ ’’وحدت الووجود ‘‘کے قائل اور اُس کی تعلیم فرماتے ۔ مثنوی شریف کا حاشیہ لکھا ۔ آپؒ نے پانچ کتابیں تصوف و دیگر علوم پر لکھیں جس میں ایک نام ’’خزینۂ رحمت ‘‘ ہے ، یہ سب قلمی اور نادرالوجود ہیں‘‘۔آپؒ متوکل تھے ، کسی کے آگے دستِ سوال دراز نہ فرمایا ۔ کم کھاتے ، کم سوتے اور حتی المقدور اللہ کے بندوں کی خدمت کرتے ۔ آپؒ اکثر روزہ رکھتے ۔ غذا میں چنا اورمونگ پانی میں بھگوکر نوش فرماتے ۔ نماز تہجد کے بعد ذکر میں فجر تک مشغول رہتے ۔ بعد فجر مراقبہ فرماتے ۔ ہر مذہب کے لوگ آپؒ کی خدمت میں حاضر ہوتے اور مفید مشوروں سے مستفید ہوتے ۔ آپؒ کو چار صاحبزادے اور دو صاحبزادیاں تھے ۔ ۷۴ سال کی عمر میں آپؒ کی وفات ہوئی اور قیامگاہ ہی میں آخری آرام گاہ بنی ۔ ۲۸؍ جمادی الاول ۱۲۰۵؁ ھ آپ کا سنہ وفات ہے ۔