دعا کرو کہ سلامت رہے مری ہمت

,

   

CAA …ہندوتوا کا نیا شوشہ
رام مندر کے نام پر کشیدگی کی سازش

رشیدالدین
سی اے اے (شہریت ترمیمی قانون) کا جنون پھر مودی حکومت پر سوار ہوچکا ہے۔ قانون سازی 2019 میں کی گئی اور عوامی احتجاج کے بعد خاموشی اختیار کرلی گئی تھی تاکہ ناراضگی کو ختم کیا جائے ۔ لوک سبھا چناؤ سے عین قبل سی اے اے کے جن کو بوتل سے باہر نکالنے کا فیصلہ کیا گیا تاکہ فرقہ وارانہ ماحول پیدا کرتے ہوئے ہندو ووٹ متحد کئے جاسکیں۔ آر ایس ایس اور سنگھ پریوار نے کئی ایسے موضوعات کو تیار رکھا ہے جن کے استعمال کے ذریعہ ملک میں مودی اقتدار کی ہیٹ ٹرک کی جاسکے۔ سی اے اے کی قانون سازی کے پانچ برس بعد قواعد کے اعلان کا فیصلہ سیاسی مقصد براری اور انتخابی فائدہ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ سیکولرازم اور جمہوریت پر قائم ہندوستان کو 2026 تک ہندو راشٹر میں تبدیل کرنا اصل ایجنڈہ ہے جس کا بارہا اظہار بھی کیا جاچکا ہے۔ 2024 عام انتخابات کا ایجنڈہ طئے ہوچکا ہے اور کامیابی کی صورت میں 2026 تک وقفہ وقفہ سے متنازعہ اشوز کو ہوا دی جاسکتی ہے جن میں کاشی ، متھرا کی مساجد و عیدگاہ پر مندر کی تعمیر ، یکساں سیول کوڈ ، این آر سی اور این پی آر شامل ہیں۔ ہندو راشٹر کے قیام میں مذکورہ موضوعات مددگار ثابت ہوں گے۔ بی جے پی ایجنڈہ کے مطابق ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کا خواب 22 جنوری کو پورا ہوجائے گا ۔ بابری مسجد کی اراضی جس انداز میں مندر کیلئے حاصل کی گئی، اس بارے میں دنیا بخوبی جانتی ہے۔ سپریم کورٹ پر مبینہ دباؤ کے تحت اراضی حاصل کرلی گئی اور لوک سبھا چناؤ میں کامیابی کیلئے رام مندر کے افتتاح کو الیکشن سے قبل رکھا گیا تاکہ حقیقی معنوں میں ملک ہندو راشٹر کی راہ پر گامزن ہوجائے۔ سنگھ پریوار چاہتا ہے کہ نریندر مودی کو حقیقی ہندوتوا چہرہ کے طور پر متعارف کیا جائے ۔ ایودھیا میں جاریہ ماہ رام مندر کے افتتاح سے بڑا کوئی الیکشن ایجنڈہ نہیں تھا لیکن اچانک CAA کا شوشہ چھوڑ دیا گیا ۔ سنگھ پریوار شائد الیکشن میں کامیابی کے لئے رام مندر کی تعمیر کو کافی تصور نہیں کرتا ، لہذا سی اے اے جیسے متنازعہ قانون کے نفاذ کا فیصلہ کیا گیا۔ قومی سطح پر کانگریس زیر قیادت اپوزیشن اتحاد ’’انڈیا‘‘ سے بی جے پی خوفزدہ ہے اور صرف رام مندر کی تعمیر کے ذریعہ اقتدار میں واپسی پر بھروسہ نہیں ہے، لہذا شہریت ترمیمی قانون کے تحت مسلمانوںکو نشانہ بنانے کی تیاری ہے۔ 2019 میں متنازعہ قانون سازی کے بعد ملک بھر میں احتجاج منظم کیا گیا تھا ۔ نہ صرف مسلمان بلکہ دیگر مذاہب کے انصاف پسند افراد بھی سڑکوں پر نکل آئے تھے۔ مودی حکومت نے احتجاج کے چلتے سی اے اے پر عمل آوری کو موخر کردیا تھا۔ بظاہر عوامی احتجاج کے آگے مودی حکومت جھک گئی تھی لیکن حقیقت میں اسے مناسب وقت کا انتظار تھا اور عام چناؤ سے بہتر کوئی اور موقع نہیں تھا جس کے ذریعہ مذہبی اساس پر ووٹ تقسیم کئے جاسکیں۔ ظاہر ہے کہ سی اے اے کے خلاف مسلمان اور دوسرے جس قدر احتجاج کریں گے ، بی جے پی کو اتنا ہی فائدہ ہوگا۔ بی جے پی خود چاہے گی کہ ملک بھر میں احتجاج ہو۔ رام مندر کی تعمیر اور اس کی افتتاحی تقریب کے بارے میں مسلمانوں کی دور اندیشی اور شعور کے مظاہرہ سے سنگھ پریوار کا منصوبہ ناکام ہوگیا۔ سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد سے مسلمانوں نے تحمل اور بردباری کے ذریعہ مسئلہ کو نظر انداز کردیا۔ سنگھ پریوار کو یقین ہوچکا ہے کہ مندر کے افتتاح کے باوجود ہندو ووٹ متحد نہیں ہوپائیں گے۔ سیاسی مبصرین کے مطابق شہریت ترمیمی قانون اگرچہ 4 پڑوسی ممالک سے تعلق رکھنے والے ہندوؤں کو شہریت دینے سے متعلق ہے لیکن مسلمانوں کی شہریت ختم کرنے کی سازش کا حصہ ہے۔ شہریت ترمیمی قانون دراصل ملک میں ہندوؤں کی آبادی میں اضافہ کرنا ہے ۔ ہندوستان میں ہندو اکثریت تو پہلے سے ہے لیکن سنگھ پریوار کی نیت ابھی تک بھری نہیں ہے ۔ پاکستان ، بنگلہ دیش ، افغانستان اور بھوٹان کے ہندوؤں کو دعوت دی جارہی ہے ۔ مسلمانوں کی ملک میں بڑھتی آبادی سے پریشان آر ایس ایس اور بی جے پی اپنی صلاحیت اور طاقت سے آبادی میں اضافہ سے قاصر ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے بیرونی مہمانوں کو گود لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ جن ممالک سے کشیدگی اور تنازعات ہیں، وہاں کے ہندو، عیسائی ، سکھ ، پارسی اور جین مذہب کے ماننے والوں کو شہریت دی جائے گی جو 31 ڈسمبر 2014 سے قبل ہندوستان آئے تھے۔ دستاویزات کا مطالبہ کئے بغیر ہندوستانی شہریت دینے کا فیصلہ کیا گیا جو ملک کی سلامتی کے ساتھ کھلواڑ ہے۔ مذکورہ ممالک میں ستائے جانے کے نام پر کوئی جاسوس حتیٰ کہ دہشت گرد بھی ہندوستان میں شہری بن کر اپنی سرگرمیاں جاری رکھ سکتا ہے۔ دہشت گردی اور جاسوسی کے تحت مسلمانوں سے زیادہ دوسری اقوام کے افراد کی گرفتاری سے حکومت انکار نہیں کرسکتی۔ جب ستائے ہوئے افراد سے ہمدردی ہے تو پھر مسلمان اس سہولت سے محروم کیوں ؟ تینوں ممالک جب ماضی میں ایک ہی خطہ تھے تو پھر صرف غیر مسلم خاندانوں سے ہمدردی انصاف کے تقاضہ کے خلاف ہے۔ تقسیم ہند کے وقت پاکستان منتقل ہونے والے اور بعد میں بنگلہ دیش کا حصہ بننے والے کئی مسلم خاندان بھی ہندوستان واپسی کے خواہشمند ہیں۔ الغرض بی جے پی حکومت کا ہر قدم ہندوتوا ایجنڈہ کا حصہ ہے۔
ایودھیا میں 22 جنوری کو رام مندر کی افتتاحی تقریب کی بڑے پیمانہ پر تشہیر کے ذریعہ بی جے پی نے انتخابی مہم کا آغاز کردیا ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی اور سنگھ پریوار کے سرکردہ قائدین افتتاح کے موقع پر موجود رہیں گے اور یہ تقریب بی جے پی کی انتخابی ریالی سے کم نہیں ہوگی۔ مندر کے بارے میں اکثریتی طبقہ میں جوش و جذبہ پیدا کرنے کیلئے بہت کچھ کیا گیا لیکن عام ہندو سنگھ پریوار کے جال میں پھنستے دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔ آر ایس ایس کو اندیشہ ہے کہ کہیں افتتاحی تقریب سے بی جے پی کو توقع کے مطابق فائدہ حاصل نہ ہو ، لہذا سنگھ پریوار کے قائدین کے ذریعہ اشتعال انگیز بیانات دلائے جارہے ہیں۔ آر ایس ایس کے لیڈر اندریش کمار نے مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ افتتاحی تقریب کے دن اپنے مدارس ، مساجد اور دیگر مقامات پر متنازعہ نعرہ لگاتے ہوئے ہندوؤں سے اظہار یگانگت کریں۔ یہ وہی اندریش کمار ہیں جو آر ایس ایس سے مسلمانوں کو قریب کرنے کی مہم پر ہیں۔ انہوں نے دہلی اور کئی شہروں میں مسلمانوں کی نام نہاد مذہبی اور سیاسی شخصیتوں کو اپنا ہمنوا بنالیا ہے ۔ مندر کے افتتاح کے دن مسلمانوں کے مذہبی مقامات پر متنازعہ نعرہ لگانے کی اپیل کرنا دراصل مسلمانوں کو مشتعل کرنے کی کوشش ہے۔ مندر کا افتتاح جیسے جیسے قریب آرہا ہے، مسلمانوں کو مشتعل کرنے کی سازش شدت اختیار کر رہی ہے۔ اترپردیش میں رام مندر اور چیف منسٹر یوگی ادتیہ ناتھ کو بم سے اڑا دینے کی دھمکی نے ہلچل پیدا کردی ہے۔ ابتداء میں پولیس نے اسے کسی دہشت گرد تنظیم کی کارستانی قرار دیا تھا لیکن حقائق منظر عام پر آتے ہی ملک کے سامنے سنگھ پریوار کی سازش بے نقاب ہوگئی۔ مسلم نام سے ای میل آئی ڈی تیار کرتے ہوئے دھماکے سے اڑانے کی دھمکیاں دی گئیں لیکن تحقیقات میں پتہ چلا کہ زبیر اور عالم کے نام سے دراصل تہار سنگھ اور اوم پرکاش مشرا سرگرم تھے۔ سیکوریٹی ایجنسیوں نے زبیر اور عالم کے نام دیکھ کر شبہ ظاہر کیا کہ مسلمانوں کی کسی تنظیم کی کارستانی ہوگی لیکن حقیقت کچھ اور ہی منظر عام پر آئی ۔ الغرض رام مندر کے افتتاح سے قبل کسی نہ کسی طریقہ سے مسلمانوں کو نشانہ بنانے کا منصوبہ ہے۔ کوئی بھی مسلمان رام مندر کو دھماکہ سے اڑانے کی دھمکی نہیں دے سکتا۔ دوسری طرف کانگریس قائد راہول گاندھی نے 14 جنوری سے بھارت جوڑو نیائے یاترا کا اعلان کیا جو منی پور سے ممبئی پہنچے گی۔ راہول گاندھی کی دوسرے مرحلہ کی یہ یاترا 15 ریاستوں کے 110 اضلاع میں لوک سبھا کے 100 اور اسمبلی کے 337 حلقہ جات کا احاطہ کرے گی۔ راہول کی یاترا نے بی جے پی کو الجھن سے دوچار کردیا ہے۔ یوں تو ملک میں اکثر ریاستوں پر بی جے پی کا کنٹرول ہے لیکن اسے کانگریس سے خوف محض اس لئے بھی برقرار ہے کہ سیکولر پارٹیوں نے انڈیا الائنس کے بیانر ترلے متحدہ طور پر الیکشن کا سامنا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انڈیا الائنس نے نشستوں پر مفاہمت کیلئے ابتدائی مرحلہ کے مذاکرات شروع کردیئے ہے۔ جس طرح راہول گاندھی کی پہلے مرحلہ کی یاترا کامیاب رہی ، اسی طرح اگر دوسرے مرحلہ میں 15 ریاستوں میں کانگریس اپنا اثر قائم کرتی ہے تو بی جے پی کیلئے 2024 لوک سبھا چناؤ مہنگا ثابت ہوگا۔ اپوزیشن کو کمزور کرنے کیلئے الیکشن سے عین قبل سی بی آئی ، انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ اور انکم ٹیکس جیسے اداروں کا اپوزیشن کے خلاف استعمال ہوسکتا ہے۔ پروفیسر وسیم بریلوی نے ملک کے حالات پر کچھ یوں تبصرہ کیا ہے ؎
دعا کرو کہ سلامت رہے مری ہمت
یہ اک چراغ کئی آندھیوں پہ بھاری ہے