دفعہ 370 پر سپریم کورٹ کا فیصلہ

   

تیری محفل سے ہم آئے نگر با حال زار آئے
تماشا کامیاب آیا تمنا بے قرار آئی
دستور کا دفعہ 370 اب قصہ پارینہ بن چکا ہے ۔ مرکزی حکومت کی جانب سے اس دفعہ کو منسوخ کردیا گیا تھا اور اس کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی تھی ۔ سپریم کورٹ نے آج فیصلہ کرتے ہوئے اس دفعہ کی برخواستگی کو درست قرار دیا ہے اور کہا کہ اس سلسلہ میں صدر جمہوریہ کی جانب سے جو اعلامیہ جاری کیا گیا تھا وہ درست تھا ۔ عدالتی فیصلہ کے تعلق سے کہا جا رہا ہے کہ یہ توقعات کے مطابق ہی ہے کیونکہ مرکزی حکومت کی جانب سے تمام تر تیاریاں کرتے ہوئے ہی یہ احکام جاری کئے گئے تھے ۔ جموں و کشمیر کی سیاسی جماعتوں اور کچھ تنظیموں کی جانب سے اس فیصلے کی مخالفت کی گئی تھی اور ان کا اصرار تھا کہ دفعہ 370 کو برقرار رکھا جانا چاہئے جس کے ذریعہ جموں و کشمیر کو خصوصی موقف حاصل تھا ۔ مرکز کا استدلال تھا کہ ملک کی تمام ریاستوں کو یکساں موقف حاصل رہنا چاہئے ۔ عدالت نے بھی آج یہ واضح کردیا کہ جیسے ہی جموں و کشمیر کا ہندوستان میںالحاق ہوا ویسے ہیں جموں و کشمیر کی دستور ساز اسمبلی کا وجود بھی ختم ہوگیا ۔ اس کے باوجود ریاست کو خصوصی موقف وہاں کی صورتحال کے مطابق برقرار رہا تھا ۔ عدالتی فیصلے پر کئی جماعتوں نے مختلف رد عمل کا اظہار کیا ہے ۔ جہاں بی جے پی اور اس کے قائدین کے علاوہ مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ کی جانب سے عدالت کے فیصلے کو تاریخی قرار دیتے ہوئے اس کا خیر مقدم کیا گیا ہے وہیں ریاست کی جماعتوں نے اس فیصلے کو عوام کی خواہشات کے مغائر اور افسردہ کردینے والا فیصلہ قرار دیا ہے ۔ جہاں تک سیاسی جماعتوں کی رائے کی بات ہے تو یہ رائے ہر ایک کی الگ الگ ہی سامنے آئی ہے اور ہر جماعت اپنے اپنے سیاسی موقف کو دیکھتے ہوئے اپنی رائے کا اظہار کرتی ہے تاہم اب یہ بات طئے ہوگئی کہ دستور کا دفعہ 370 اب اپنا وجود کھوچکا ہے اور یہ قصہ پارینہ بن چکا ہے ۔ یہ ایک تاریخ بن گئی ہے اور فی الحال جموں و کشمیر کو کوئی خصوصی موقف حاصل نہیںہے ۔ مرکزی حکومت نے کہا کہ اس فیصلے کے ذریعہ عوام اور خاص طور پر غریب عوام کے حقوق کو بحال کیا گیا ہے ۔ خود وزیر اعظم نے بھی اس فیصلے کی ستائش کی ہے ۔
عدالتی فیصلہ اپنی جگہ حرف آخر اور مسلمہ ہے ۔ جہاں تک سیاسی جماعتوں کی بات ہے تو انہوں نے اس پر جو رائے دی ہے وہ بھی دلچسپ ہی کہی جاسکتی ہے ۔ جموں و کشمیر کے سابق چیف منسٹر غلام نبی آزاد نے اس پر افسوس کا اظہار کیا ہے اور کہا کہ اس فیصلے کو قبول تو کرنا ہی پڑیگا ۔ عدالتی فیصلہ ہر ایک کیلئے قبول کرنا ضروری ہے ۔ جموںو کشمیر کے ایک اور سابق چیف منسٹر عمر عبداللہ نے معروف شاعر فیض احمد فیض کی نظم کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس فیصلے سے افسوس تو ہوا ہے تاہم انہوں نے اس امید کا بھی اظہار کیا ہے کہ وقت کے گذرتے حالات کو تبدیل بھی کیا جاسکتا ہے ۔ انہوں نے نظم کا بند بھی ٹوئیٹ کرتے ہوئے اپنے جذبات کی عکاسی کی ہے ۔ تاہم عدالتی فیصلہ سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ جو فیصلہ سپریم کورٹ نے چیف جسٹس آف انڈیا کی صدارت میں دیا ہے وہ حرف آخر ہے اور صورتحال کے بدلنے کی امید فضول ہی کہی جاسکتی ہے ۔ رکن راجیہ سبھا کپل سبل کی رائے بھی دلچسپ رہی ۔ انہوں نے کہا کہ کچھ جدوجہد شکست کھانے کیلئے ہی کی جاتی ہے ۔ تاریخ میں اس کا تذکرہ محفوظ ہوجائے گا اور انتظامی طور پرا س کے درست یا غیر درست ہونے کے تعلق سے مباحث چلتے رہیں گے ۔ سپریم کورٹ نے تاہم مرکزی حکومت کو آئندہ سال ستمبر تک جموں و کشمیر کے اسمبلی انتخابات کروانے کی بھی ہدایت دی ہے جس سے کشمیری عوام کیلئے یہ ایک خوشخبری ہوسکتی ہے کہ جموں و کشمیر کا ریاست کا درجہ بحال کیا جاسکتا ہے ۔
جہاں دفعہ 370 کی برخواستگی کا سپریم کورٹ کا فیصلہ حرف آخر ہے اور اس میں اب کوئی تبدیلی ممکن نہیں رہ گئی ہے وہیں جموں و کشمیر کا ریاست کا درجہ بحال کرتے ہوئے وہاں اسمبلی انتخابات کروانے کی رائے بھی حرف آخر ہونی چاہئے ۔ دستوری دفعہ کی تنسیخ کے بعد اسمبلی انتخابات کروانے اور وہاں کے عوام کو ان کے جمہوری حقوق حوالے کرنے کے معاملے میں مرکزی حکومت کو کسی ٹال مٹول کی پالیسی سے کام نہیں کرنا چاہئے اور نہ کوئی بہانہ بازی کی جانی چاہئے ۔ جموںو کشمیر کے عوام کو جس حق جمہوریت سے اب تک محروم رکھا جاتا رہا ہے اب اس کا سلسلہ روکا جانا چاہئے ۔ عوام کے ذریعہ منتخب کی ہوئی حکومت کو وہاں کے عوام کی بہتری اور مستقبل کو تابناک بنانے کام کرنے کا موقع دیا جانا چاہئے ۔