دلتوں سے جھوٹی ہمدردی

   

ہیں نوک زباں پر تو محبت کے ترانے
نفرت سے بھرے تیر عمل میںنظر آئے
دلتوں سے جھوٹی ہمدردی
الور میں ایک دلت خاتون کی اجتماعی عصمت ریزی معاملہ پر بھی اب سیاست ہونے لگی ہے ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ خود ملک کے وزیر اعظم یہ سیاست کرنے لگے ہیں۔ انہوں نے الور معاملہ پر کوئی کارروائی کرنے یا ریاستی حکومت کو کوئی ہدایت دینے کی بجائے سیاسی بیان بازی شروع کردی ہے اور اس سے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مودی نے الور معاملہ پر بی ایس پی کی سربراہ مایاوتی کو نشانہ بنایا ہے ۔ مودی خود اترپردیش میں انتخابی ریلیوں سے خطاب کر رہے تھے ار ان کا کہنا تھا کہ راجستھان میں کانگریس حکومت کو مایاوتی کی تائید حاصل ہے ۔ اسی حکومت میں دلت خاتون کی اجتماعی عصمت ریزی ہوئی ہے اس پر مایاوتی مگرمچھ کے آنسو بہا رہی ہیں اور اگر انہیں واقعی دلتوں سے ہمدردی ہوجتی تو انہیں کانگریس حکومتکی تائید سے دستبرداری اختیارکرلینی چاہئے تھی ۔ نریندر مودی کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وہ ملک کے وزیر اعظم ہیں اور صرف اپوزیشن کو تنقیدوں کا نشانہ بنانا یا سیاسی فائدہ حاصل کرنا ہی ہر کام کی مقصد نہیں ہونا چاہئے ۔ انہیں مسائل کی سنگینی اور حساسیت کو سمجھتے ہوئے کام کرنا چاہئے تھا ۔ انہیں ایک خاتون کی عصمت ریزی کے مسئلہ پر سیاست کرنے کی بجائے عملا اس کی فلاح و بہبود کیلئے کچھ اقدام کرتے ۔ ریاستی حکومت کو کسی کارروائی کی ہدایت دیتے اور رپورٹ طلب کرتے ۔ یہ سارا کچھ اس وقت ممکن ہوتا جب حکومت واقعی کسی مسئلہ پر سنجیدہ ہو لیکن یہاں تو حکومت کا مطلب ہی سیاسی فائدہ حاصل کرنا ہوکر رہ گیا ہے ۔ ہر مسئلہ کو سیاسی رنگ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے اور صرف فائدہ مقصود ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ دلتوں پر جتنے واقعات بی جے پی اقتدار میں پیش آئے ہیں ان سارے معاملات پر مودی نے خاموشی اختیار کرلی تھی ۔ ان کی خاموشی در اصل ایسا کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کے مترادف تھی کیونکہ حکومت کی نااہلی اور عدم کارکردگی کی وجہ سے ہی دلتوں کے خلاف مظالم ڈھانے والوں کے حوصلے بلند رہے اور وہ مظالم ڈھاتے رہے ہیں۔ سابق میں تو کبھی نریندر مودی کو دلتوں سے کوئی ہمدردی نہیں ہوئی اور نہ ہی انہوں نے کوئی بیان جاری کیا تھا ۔
راجستھان میں جس وقت بی جے پی کی حکومت تھی چار دلت نوجوانوں کو پیٹ پیٹ کر برا حال کردیا گیا تھا ۔ کسی اور مقام پر دلتوں کو مار پیٹ کرکے ہلاک کردیا گیا تھا ۔ کہیں کسی خاتون کو برہنہ گشت کروایا گیا تھا ۔ دلت خواتین کی عصمت ریزی اور ان کے جنسی استحصال کا خود بی جے پی قائدین پر الزام عائد کیا گیا تھا لیکن ان سارے معاملات میں بی جے پی یا نریندر مودی کو دلتوں سے کوئی ہمدردی نہیں رہی اور نہ اس وقت انہوں نے کوئی بیان جا ری کیا تھا ۔ انہوں نے اس وقت ریاست کی وسندھرا راجے سندھیا حکومت کو کوئی ہدایت نہیں دی تھی اور نہ ہی وسندھرا حکومت کے خلاف کوئی کارروائی کی تھی ۔ اس وقت انہوں نے کسی دلت لیڈر کی تنقید کو تک قبول نہیں کیا تھا ۔ حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی میں خود کشی پر مجبور کیا جانے والا روہت ویمولہ بھی دلت ہی تھا لیکن اس پر بھی نریندر مودی خاموش رہے تھے ۔ روہت ویمولہ کے پسماندہ طبقات سے تعلق رکھنے پر بھی سوال کیا گیا لیکن مودی خاموش رہے تھے ۔ الور ہی میں دلتوں پر مظالم کے واقعات پیش آئے تھے اس وقت بھی وزیر اعظم نے کچھ نہیں کہا تھا کیونکہ اس وقت ریاست میں بی جے پی کی حکومت تھی اور اس وقت اگر مودی زبان کھولتے تو ان کی ہی پارٹی کی ہتک ہوتی ۔ اس سے انہیں سیاسی فائدہ حاصل نہیں ہوتا بلکہ نقصان ہی ہوتا ۔ شائد اسی لئے اس وقت وزیر اعظم کو دلتوں کی عزت اور اہمیت محسوس نہیں ہوئی تھی ۔
یہ حقیقت ہے کہ ملک میں کسی بھی مقام پر کسی بھی طبقہ سے تعلق رکھنے والی خواتین کے ساتھ اگر زیادتی ہوتی ہے یا ان کی عصمت کو تار تار کیا جاتا ہے تو ملزمین کے خلاف سخت ترین کارروائی کی جانی چاہئے اور انہیں کیفر کردار تک پہونچایا جانا چاہئے تاہم ایسے معاملات میں سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی جانی چاہئے ۔ کسی بھی حال میں متاثرین سے انصاف کرنے اور انہیں انصاف دلانے کیلئے جدوجہد کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ ان کے ساتھ ہونے والی زیادتی اور ناانصافی کے نام پر اپنے لئے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کرنا انتہائی افسوسناک عمل ہے ۔وزیر اعظم نریندر مودی ہوں یا دوسرے قائدین ہوں انہیں اس بات کو یقینی بنانا چاہئے کہ متاثرین کے نام پر کوئی سیاست نہ ہونے پائے ۔