دل میں جو اک گمان تھا

   

تصویر کائنات میں رنگ بکھیرنے والی صنف نازک کیلئے زیور بالی جھمکا‘ کنگن پائل اور چوڑیوں کے بغیر زندگی کا تصور ناممکن سمجھا جاتا ہے۔ جیویلری خواتین کے بناؤ سنگھار کا اہم جزو ہے شادی بیاہ سمیت کوئی ایک تقریب نہیں جس کیلئے وہ ڈریسر کی مناسبت سے جیویلری کا انتخا ب نہ کرتی ہوں۔ برصغیر کے دیگر ممالک میں خواتین رسم ورواج کے مطابق بھاری بھرکم جیویلری پہنتی ہیں مگر موجودہ دور میں صورتحال یکسرمختلف ہوچکی ہے اب ہلکے پھلکے انداز کے ساتھ مختلف رنگوں میں جیویلری مارکیٹ میں دستیاب ہے جنہیں مختلف تقاریب کو مدنظر رکھ کر تیار کیا گیا ہے۔خواتین کیلئے زیورات کی اسی اہمیت کے پیش نظر جیویلری کے نت نئے رحجانات مارکیٹ میں متعارف کروائے جاتے رہتے ہیں۔جسے دیکھنے کے بعدپہننے کی لگن خواتین کو بے چین کر دیتی ہے اور وہ اْسے خریدنے کی جستجو میں لگ جاتی ہیں۔ اور یہ بے چینی اور جستجو ایک ختم نہ ہونے والی خواہش کے طور پر تمام عمر کی خواتین میں پائی جاتی ہے۔ خواتین چاہے عمرکے سولہویں برس میں ہوں یاچھتیسویں سال میں ہوں ،سولہ سنگھار کے ساتھ ساتھ جیویلری کا استعمال لازمی سمجھتی ہیں لیکن یہ شوق جنون کی حد تک لڑکیوں میں زیادہ پایا جاتا ہے۔آفس جانا ہو یا کسی تقریب میں جیویلری بنا صنف نازک کا تصورہی ممکن نہیں۔ خواتین میں مقبول جیویلری مقبول ٹرینڈرکی بات کی جائے تو اس برس نیکلس ایک بار پھر خواتین کی صراحی دار گردن کی زینت بن گیا تو کہیں کف بریسلٹ اْن کے ہاتھوں کی آرائش بنا۔ایک وقت تھا جب چوڑیاں پہننا خواتین کی پہلی تر جیح ہوتی تھی۔ شادی بیاہ کافنکشن ہو یاخوشی کی کوئی بھی تقریب خواتین اور لڑکیاں اپنے سوٹوں کے ساتھ میچنگ چوڑیاں پہنا کرتی تھیں پھرجوں جوں وقت گزرتا گیا، اس کے تقاضے بھی تبدیل ہوتے گئے اور فیشن اور خواتین کی تر جیحات میں تبدیلی آتی گئی۔چوڑیاں پہننے کا رواج آج بھی ہے لیکن اتنا زیادہ نہیں ہے صرف خوشی کے تہواروں پر چوڑیاں پہنی جاتی ہیں۔ عام روٹین میں لڑکیاں چاہے اسکول کالج کی ہوں یا یونیورسٹی کی بریلسٹ پہنے ہوئے دکھائی دیتی ہیں یوں اگر ہم یہ کہیں کہ بریسلٹ پہننے کا رواج عام ہوتا جارہاہے بے جانہ ہوگا۔ ورکنگ وومن ہوں یا کالج یونیورسٹی جانے والی لڑکیاں، کپڑوں کے ساتھ میچنگ بریسلٹ پہننے کوترجیح دیتی ہیں۔