دنیا کی بھی سی اے اے پر توجہ، نئے قانون کیخلاف متعدد ملکوں میں احتجاج

,

   

انگلینڈ ، جرمنی ، سوئٹزرلینڈ ،جنوبی افریقہ و دیگر ملکوں میں بھی احتجاج
پولینڈ میں معمولی ہندوستانی برادری کے باوجودغیر جمہوری قانون کیخلاف مظاہرہ
دیگر روایتی مسائل نظر انداز کئے جاتے رہے، سی اے اے پر خاموش نہیں رہ سکتے

نئی دہلی / لندن ۔ 16 ۔ جنوری (سیاست ڈاٹ کام) ہندوستان میں شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے خلاف زائد از ایک ماہ سے لگاتار احتجاج جاری ہے۔ انٹرنیٹ اور سوشیل میڈیا کے اس دور میں غیر دستوری ہندوستانی قانون دنیا بھر کی توجہ بھی حاصل کرچکا ہے اور بیرون ہند مقیم سینکڑوں و ہزاروں اسٹوڈنٹس و دیگر افراد مخالف سی اے اے مظاہروں میں شامل ہورہے ہیں۔ کیا کیپ ٹاؤن (جنوبی افریقہ) ، کیا میونخ (جرمنی) اور کیا وارسا (پولینڈ) ہر شہر میں نئے قانون شہریت کے خلاف اظہار خیال کیا جارہا ہے بلکہ عملی مظاہرے بھی ہورہے ہیں۔ برطانیہ بالخصوص لندن تو ہمیشہ برصغیر والوں کے لئے مانوس شہر رہا ہے ۔ لندن میں بلیک پل کا مقام ہر موسم سرما کے دوران سنسان ہوجاتا ہے لیکن اس مرتبہ وہاں شدید سردی کے باوجود اسٹوڈنٹس نے احتجاج کیا۔ سوئٹزرلینڈ سے تقریباً 800 میل دور علی باغ کے متوطن 29 سالہ ریسرچر ہرشل کیٹ نے برن میں سوئز نیشنل بینک کے روبرو احتجاج کیا۔ اس نے وزیراعظم نریندر مودی کے اس تبصرہ پر سخت اعتراض کیا کہ فسادی لوگ اپنے کپڑوں سے ہی پہچانے جاتے ہیں۔ سڈنی میں 60 ہندوستانیوں میں پمفلٹس تقسیم کئے، جس میں سی اے اے کی تفصیلات درج کی گئی۔ جرمنی کے میونخ کی سڑکوں سے نیویارک میں کولمبیا یونیورسٹی اور فن لینڈ میں ٹیمپیئر یونیورسٹی کے کیمپسوں تک ہر جگہ تھوڑی تعداد میں سہی لیکن نوجوان اور بڑی عمر والے ہندوستانیوں نے سی اے اے کی مخالفت میں احتجاج درج کرایا ۔ سوشیل میڈیا اور ای میل کے ذریعہ ربط میں رہتے ہوئے بیرون ملک ہندوستانیوں نے ابھی تک 50 احتجاجوں کا اہتمام کیا ہے ۔ پولینڈ کی ایک یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر سوشیل سائیکالوجی 34 سالہ سندھوجا سنکرن کا کہنا ہے کہ آپ چاہے کہیں بھی رہو ، آپ کو اپنے وطن کی فکر رہتی ہے۔ آپ اپنی ثقافت اور انسانیت سے تعلق ضرور رکھتے ہیں۔ گزشتہ ماہ وارسا میں ہمارے احتجاج کی طرف کئی لوگ اس حقیقت کے پیش نظر متوجہ ہوئے کہ ہم نے محض نعرہ بازی نہیں کی بلکہ معلوماتی مہم چلائی جس کے تحت ہم نے سی اے اے اور این آر سی کے سماجی اثرات کی وضاحت کی۔ یہ دونوں کو ایک ترکیب میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ دونوں مل کر جمہوریت اور پناہ گزینوں کے حقوق کے خلاف کام کرتے ہیں۔ سندھوجا نے کہا کہ انہیں وارسا کے احتجاج میں تقریباً 50 ہندوستانیاں جمع ہونے پر خوشگوار حیرت ہوئی ۔ وارسا میں ہندوستانی برادری کی کچھ خاص بڑی جسامت نہیں ہے۔ لندن میں ہندوستانی برادری قابل لحاظ تعداد میں ہیں۔ وہاں 14 ڈسمبر کو ہندوستانی سفارتخانہ کے باہر 500 افراد نے احتجاج کیا ۔ یو کے میں زیادہ تر کالجوں اور رہائشی علاقوں کی ہندوستانی سوسائٹیاں ہندو سوسائٹیز ہیں جہاں ہندو طرز کے انڈیا کا پرچار کیا جاتا ہے ۔ یہی فیس بک گروپوں کا حال ہے۔ جرمنی میں سائیکو اکاسٹکس انجنیئر 30 سالہ الوک اپرنارے کا کہنا ہے کہ انہیں فیس گروپ ’’انڈین سین جرمنی‘‘ سے نکال دیا گیا، جب انہوں نے سی اے اے کے خلاف برلن میں مجوزہ احتجاج کے تعلق سے معلومات پوسٹ کئے تھے۔ بیرون ملک ہندوستانی طلبہ کے احتجاج کی بڑی وجہ جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علیگڑھ مسلم یونیورسٹی میں طلبہ کے خلاف تشدد کی تصاویر اور ویڈیوز ہیں، جن سے وہ دہل گئے ہیں۔ ابھی تک بیرونی ملکوں میں پڑھنے والے ہندوستانی معاشی سست روی ، الیکٹورل بانڈ ، سرکاری دواخانوں میں بچوں کی اموات جیسے مسائل سے راست طور پر متاثر نہیں تھے۔ جامعہ ، اے ایم یو اور جے این یو جیسے پرتشدد معاملوں نے ہر کسی کو جھنجھوڑ دیا ہے۔ یہ تشویشناک صورتحال ہے۔