دودھ کی تھلیلوں سے تیار دھاگے کی چٹائی۔ جامعیہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ کی نئی جہد

,

   

نئی دہلی۔ سمبھال کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی ایک 56سالہ مسرت باٹلہ ہاوز میں اپنی چھوٹی ٹیلرنگ کے کام سے کچھ وقت نکال کر گھر کے باہر دودھ کی پلاسٹک پیاکٹس اکٹھا کرنے کے لئے نکلتی ہیں ‘ وہ دیگر عورتوں کے ساتھ ملکر ان ’’ پلاسٹک کے دھاگی ‘‘ کا استعمال چٹائی بنانے کے لئے کرتی ہیں۔

مسرت کا پراجکٹ کاحصہ ہیں جس کی شروعات جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ نے کی ہے ‘ جس کا مقصدکیمپس جو پہلے سے ہی سولار پاؤر سے لیز ہے وہاں پر پلاسٹک سے پیدا ہونے والے فضلہ نہیں رہے ۔

مذکورہ طلبہ نے کچرے چننے والوں کی ایک ٹیم بنائی جو سافٹ پلاسٹک فضلہ جمع کرتے ہیں اور سمبھال کمیونٹی کے لوگوں کو لاکر دیتے ہیں۔ حالانکہ یہ سستے چٹائی کی فروخت ایک این جی او کو کرتے ہیں جو بے گھرلوگوں کے لئے کام کرتی ہے۔

پراجکٹ جس کا عنوان’’ مشن تبدیل‘‘ ہے سے جوڑے انجینئرنگ چوتھے سال کے طالب علم سوراب سمن نے کہاکہ ’’ ہماری منشاء چوتھی تبدیلی لانے کی ہے جو دو بڑے سماجی وجوہات کے متعلق ہے ‘ جس کو عام طور پر فضلہ کا انتظام اور سطح غربت سے نیچے کی زندگی گذار نے والے طبقات کی فلاح وبہبود‘‘۔ مسرت علاقے میں چھوٹی موٹی سلوائی کرکے اپنا گھر چلاتی ہیں۔

ایک منفرد تجویزکے ساتھ کچھ طلبہ ان سے رجو ع ہوئے اور وہ تجویز پلاسٹک کو کپڑے میں تبدیل کرنے کی تھی۔

مسرت نے کہاکہ ’’ ہم عام طور پر سلوائی کا کام کرتے ہیں‘ مگر یہ ایسا تھا جس کے متعلق پہلے کبھی نہیں سنا‘ دیگر مصنوعات سے کچھ وقت کوشش کے بعد ہم نے دودھ کے پیاکٹس کااستعمال کا فیصلہ کیا۔ وہ نرم اور آسانی کے ساتھ استعمال ہونے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں‘‘۔

اسی علاقے کی رابیعہ سلوائی کی علیحدہ آمدنی سے کارپینٹر شوہر کی مدد کرتے ہیں۔انہوں نے کہاکہ ’’ پلاسٹک ہم اپنے گھر کی چھت پر رکھتے ہیں‘ قینچے سے اس کو کاٹ کر دھاگوں کی شکل دیتے ہیں اور بنوائی میں اسکااستعمال کرتے ہیں۔ سارے مکمل ہونے تک دو سے تین دن کا وقت لگا جاتا ہے‘‘۔

عموما ہر ماہ اس کام سے عورتوں کو چار ہزار کی آمدنی ہوجاتی ہے اور طلبہ ایک این جی او کو یہ فروخت کرکے ان کی مدد کرتے ہیں۔

کفیل خان بی اے اکنامکس میں سال سوم کا ایک طالب علم نے کہاکہ پراجکٹ جامعیہ کے طلبہ نے اس پراجکٹ کی شروعات کی ہے’’ جسکا مقصد فضلہ کی انتظام کو فروغ دینا اور باٹلہ ہاوز میں رہنے والی خواتین کے معیار میں بہتری لانا ہے‘‘۔

اس کے علاوہ ٹیم نے علاقے کے بچوں کی تعلیم کی بھی ذمہ داری لی ہے۔ دسویں جماعت کا ایک طالب علم سمیر ان سے مسلسل ’’ ٹیوشن ‘‘ لیتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ ’’ جامعہ کے طلبہ نے اس کمپیوٹر چلانا بھی سیکھا یا ہے‘‘