دیکھا ہے جو کچھ میں نے اوروں کو بھی دکھلادے

   

محمد مبشر الدین خرم

تیل کے ذخائر پر قبضوں کے لئے کی جانے والی جنگوں نے روئے زمین سے نہ صرف لاکھوں افراد کو ختم کیابلکہ کئی شہروں کو نیست و نابود کردیا ۔ خلیج کی جنگوںنے کویت‘ عراق‘ شام‘ ایران ‘ لیبیاء کے علاوہ اردن‘ یمن‘ مصر میں جو تباہیاں مچائی ہے اب ان کے زخم اب کچھ حد تک مندمل ہونے لگے تھے اور عرب ۔ اسرائیل جنگوں سے شروع ہونے والی تیل کے ذخائر پر قبضوں کے لئے کی جانے والی جنگوں نے مجموعی طور پر خلیج کو شکست سے دوچار کردیا ہے لیکن ان جنگوں کے دوران جو ممالک اتحادی افواج کے ساتھ حملہ آور ہوئے ہیں اب ان کا رخ افغانستان ہے اور اب یہ جنگ تیل کے بجائے لیتھیم کے ذخائر کے لئے لڑی جائے گی۔ افغانستان کے متعلق اب تک یہ تاثر دیا جاتا رہاہے کہ اس پہاڑی علاقہ میں کوئی تیل نہیں ہے اور نہ ہی ایسے معدنیات ہیں جن کے سبب عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے حامل ممالک کو ا س میں کوئی دلچسپی ہوگی لیکن یہ بات درست نہیں ہے کہ افغانستان میں کوئی قیمتی معدنیات نہیں ہیں بلکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ افغانستان لتھیم سے مالا مال سرزمین ہے اور ایک اندازے کے مطابق 1ٹریلین ڈالر مالیت کے لیتھیم ذخائر افغانستان میں موجود ہیں جو کہ ترقی یافتہ ممالک کی افغانستان میں دلچسپی کا بنیادی سبب ہے۔ تیل کے ذخائر رکھنے والے ممالک میں تباہ کن جنگوں نے ان ممالک کو جہاں تیل کی پیداوار ہوتی ہے امریکہ کے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا اور تیل کو اپنا ہتھیار بنانے کے منصوبہ تیار کرنے والوں کو پرتعیش زندگیوں کا دلدادہ بنانے کے بعد ان کی سرحدوں میں اپنے سرمایہ کاروں کے ذریعہ ایسے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانا شروع کردیا ہے جو کہ نہ صرف تیل کی دولت پر قبضہ بلکہ تہذیبی ورثہ کی تباہی کا بھی سبب بننے لگا ہے اور اس منصوبہ کو مسابقت کا نام دیتے ہوئے عالمی کمپنیوں کو کنٹرول فراہم کیا جا رہاہے۔
لیتھیم کیا ہے!
لیتھیم ایک ایسی دھات ہے جس کی دنیا میں اب تک اتنی شدت سے ضرورت نہیں تھی جتنی تیل اور کچ دھات کی ضرورت محسوس کی جاتی تھی۔ سونا اور چاندی کے علاوہ دیگر قیمتی دھاتیں بھی کانکنی کے ذریعہ ہی نکالی جاتی ہیں لیکن ان کی مقدار اور تصرف کے اعتبار سے ان دھاتوں کا استعمال دولت مند طبقہ تک محدود ہے لیکن لیتھیم ایک ایسی عام دھات ہے جو فی الحال ہر کسی کی ضرورت ہے اور مستقبل قریب میں لیتھیم کے استعمال میں زبردست اضافہ کی توقع ہے کیونکہ لیتھیم بیٹری بنانے میں استعمال کیا جانے والا بنیادی عنصر ہے اور اس کے بغیر بیاٹری بنانا مشکل ہے اور اس کا متبادل فوری حاصل ہونا مشکل ہے اسی لئے موبائیل فون کی بیاٹری سے موٹر کار کی بیاٹری تک میں لیتھیم کا استعمال کیا جاتا ہے اور اسی کے استعمال سے یہ بیاٹریاں تیار کی جاتی ہیں اسی لئے لیتھیم کو دور حاضر کا تیل کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کیونکہ دنیا تیزی سے الکٹرک وہیکل کی طرف دوڑ رہی ہے اور ایندھن سے استعمال کی جانے والی گاڑیوں کو بند کرنے کی تیاریاں کی جانے لگی ہیں جس کے سبب یہ کہاجا رہا ہے کہ آئندہ دو دہائیوں کے دوران ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کا تیل اور ایندھن پر سے انحصار بڑی حد تک ختم ہوجائے گا کیونکہ ان ممالک میں موٹرسیکل سے موٹر کار اور دیگر ذرائع حمل و نقل الکٹرانک ہوجائیں گے اور ان میں بیاٹری ہوگی جس کی تیاری کے لئے لیتھیم ایک اہم عنصر ہوگا۔دنیا کے کئی ممالک بشمول امریکہ اور ہسپانوی ممالک میں بھی لیتھیم کے ذخائر موجود ہیں اور چین بھی دنیا کے ان ممالک میں شمار کیا جاتا ہے جہاں لیتھیم کے ذخائر پائے جاتے ہیں۔ دنیا بھر میں موبائیل فون کی صنعت نے لیتھیم کی اہمیت کو اجاگر کیا تھا اور اب بیاٹری سے چلنے والی گاڑیوں کے استعمال اور ماحولیات کے تحفظ کے لئے لیتھیم کی اہمیت میں مزید اضافہ ہونے لگا ہے۔
الکٹرانک اشیاء اور معدنیات
الکٹرانک اشیاء کی تیاری میں محض لیتھیم ہی اہمیت کا حامل نہیں ہے بلکہ الکٹرانک اشیاء کی تیاری میں لیتھیم کے ساتھ ساتھ انتہائی کمیاب دھات ’ٹینٹلم‘ اور عام دستیاب ہونے والی دھات تانبہ کو بھی کافی اہمیت حاصل ہے ۔ افغانستان میں لیتھیم ہی نہیں بلکہ ٹینٹلم اور تانبہ کے بھی کئی ذخائر موجود ہیں اور ان ذخائر کا حصول دنیا کے بیشتر ممالک امریکہ ‘ یوروپ‘ چین اور ہندستان کے لئے انتہائی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ ان ممالک میں الکٹرانک اشیاء کی تیاری بالخصوص بیاٹری سے چلنے والی گاڑیوں‘ موبائیل فون اور دیگر اشیاء کے استعمال میں اضافہ کے علاوہ ان اشیاء کی تیاری بھی کافی تیز ہونے لگی ہے اور ان کی تیاری کیلئے لیتھیم ‘ ٹینٹلم اور تانبہ کے ہونا بے انتہاء ضروری ہے۔ سال 2020کے دوران جب کورونا وائرس کے سبب دنیا بھر میں معاشی انحطاط ریکارڈ کیا جا رہا تھا اس دور میں الکٹرانک اشیاء کی تیاری کرنے والی کمپنیوں نے 439بلین ڈالر کا کاروبارکیا اور سال گذشتہ کے اعتبار سے مجموعی تجارت میں 6.5فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے اور ہندستان میں جون 2021میں پی جی الکٹروپلاسٹ نے الکٹرانک اشیاء کی تیاری کیلئے مجموعی اعتبار سے 766 ملین ہندستانی روپئے کی سرمایہ کاری کا فیصلہ کیا ہے۔
ہندستان اور طالبان
قطر میں طالبان کی جانب سے گذشتہ کئی برسوں سے جاری سفارتی مذاکرات دنیا کی نظر میں ہیں لیکن سفارتی اصولوں میں ایک اصول یہ بھی ہے کہ تمام مذاکرات برسرعام نہیں ہوتے اور نہ ہی مذاکرات کے لئے راست دونوں فریقین میں بات چیت ہوا کرتی ہے بلکہ جن فریقین کے درمیان بات چیت ہوتی ہے ان کے بااعتماد رفقاء جو کہ سفارتی‘ تجارتی اور خارجہ امور کے ماہرین ہوتے ہیں وہ ان مذاکرات کو جاری رکھے ہوئے ہوتے ہیں اور ان مذاکرات کو کہیں رپورٹ نہیں کیا جاتا تاکہ دونوں فریقین کے داخلی امور پر ان کا کوئی منفی اثر نہ ہو۔ ہندستان سے طالبان کے تعلقات اور مذاکرات کا باریکی سے جائزہ لیا جائے تو طالبان اور ہندستان اپنے مشترکہ حریف کو شکست دینے کیلئے سیاسی طور پر متحد ہوسکتے ہیں کیونکہ طالبان کا خیبر پختونخواکا دعویٰ اور پاکستان کی 4 ریاستوں میں دو ایسی ریاستیں ہیں جہاں پاکستان کو اپنی ہی عوام کی مزاحمت کا سامنا ہے جن میں خیبر پختونخوا کے علاوہ بلوچستان شامل ہے۔ بلوچستان اور افغانستان کے تعلق اور پشتوں زبان کے علاوہ تہذیبی اتحاد سے کوئی انکار نہیں کرسکتا جبکہ خیبر پختونخوا میں ایبٹ آباد ‘ جنوبی وزیرستان‘ ڈیرہ اسمٰعیل خان تک طالبان کی رسائی اور کاروائیوں سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اسی طرح افغانستان کی تعمیر نو میں 9/11 کے بعد 2بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کے دوران بھی یہ مذاکرات جاری ہی رہے ہوں گے کیونکہ زمین پر جب طالبان موجود تھے تو بغیر ان کے ساتھ مذاکرات کے سرمایہ کاری کی گنجائش ہی نہیں ہوتی علاوہ ازیں طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے یہ واضح کردیا ہے کہ وہ ہند۔پاک اختلافات کا حصہ نہیں بنیں گے کیونکہ ہم افغانستان کے باشندے ہیں۔
چین‘افغانستان اور پاکستان
15اگسٹ کو طالبان کے کابل پر قبضہ کے ساتھ ہی جن ممالک نے طالبان کے ساتھ ملکر کام کرنے کا اعلان کیا ہے ان میں سب سے پہلے چین اور پاکستان شامل ہیں اور ہندستان نے جو پالیسی اختیار کی ہے وہ انتظارکرو اور دیکھو کی پالیسی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پاکستان جو کہ طالبان کے خلاف 2014 میں شروع کئے گئے ’ضرب عضب‘ کے دوران نہ صرف افغان طالبان بلکہ تحریک طالبان پاکستان‘ القاعدہ ‘ حقانی نیٹ ورک‘لشکر جھنگوی جیسی تنظیموں کے خاتمہ کے لئے کیا تھا اور اس آپریشن کے دوران ہزاروں افراد مارے گئے تھے اور اب جب طالبان نے افغانستان میں اقتدار حاصل کیا ہے تو ایسے میں پاکستان عجلت میں خیر مقدم کی پالیسی اختیار کئے ہوئے ہے تاکہ بلوچستان ‘ خیبرپختونخوا کے علاوہ ضرب عضب پر طالبانی ردعمل سے محفوظ رہا جاسکے۔ چین کو افغانستان کے ساتھ ملکر کام کرنے کا اعلان اس لئے کرنا پڑا ہے کیونکہ افغانستان کے 2016 میں ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کا 164واں رکن بننے کے بعد چین کے تجارتی مفادات اور چین کی تجارتی راہداری ‘ چابہار معاہدہ‘گیاس پائپ لائن جیسے اثاثہ موجود ہیں۔چین ۔پاک اکنامک راہداری کا بڑا حصہ بلوچستان اور 2010کے پاک ۔افغان معاہدہ کے بعد افغانستان سے ہوکر گذرتی ہے ۔ اسی لئے دونوں ممالک کے صیانتی وتجارتیمفادات نے ان کو طالبان کے ساتھ ملکر کام کرنے کے لئے مجبور کیا ہے اور طالبان کی جانب سے بھی ان کا خیر مقدم کیا جا رہاہے۔
طالبان کی سیاسی ‘ خارجہ اور تجارتی پالیسی
20 سال کے دوران طالبان کی جانب سے جس انداز کی سیاسی ‘ خارجہ اور تجارتی پالیسی اختیار کی جا رہی ہے اس پالیسی نے مصر میں محمد مرسیؒکے جمہوری اقتدار کو قبول کرنے میں تامل کرنے والے امریکہ کو ان کے جبری اقتدار کو قبول کرنے پر مجبور کردیا ہے۔ طالبان کو جس انداز میں ذرائع ابلاغ ادارو ںکی جانب سے پیش کیا جا رہاہے کہ وہ مذہبی شدت پسند ہیں تو یہ قصہ پارینہ ہے اگر وہ مذہبی شدت پسند ہوتے تو چین کے ساتھ ملکر کام کرنے کے اعلان کا خیر مقدم کرنے کے بجائے وہ چین سے ایغور مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر سوال کرتے‘ اسی طرح اگر یہ 20سال پرانے طالبان ہوتے تو وہ ایبٹ آباد کی کاروائی میں قصاص کی بات کرتے لیکن ان کی جانب سے قصاص کے بجائے یہ کہا جا رہا ہے کہ جنگ کے دوران شہید ہونے والوںکے لئے وہ دعاء گو ہیں۔امریکہ کا ہتھیار چھوڑ کرافغانستان سے تخلیہ ‘ جبری اقتدار کو قبول کرنے کی مشروط آمادگی اور اب دھماکوں کے بعد دوبارہ ’داعش (خراسان) کے وجود کو تسلیم کرنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ 25 سال میں ایک نسل تیار کی جاتی ہے لیکن امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے 20 سال کے دوران جو تربیت کی ہے اس کے نتائج آپسی خونریزی ہوں گے اور ایک مرتبہ پھر اپنے اس محاذ پر طالبان کا استعمال کیا جائے گا جس پر امریکہ اپنی توانائی ضائع نہیں کرنا چاہتا بلکہ دنیا کی نظر میں خود کو پاک و صاف رکھتے ہوئے مسلمانوں کے درمیان ہی ایسی صورتحال پیدا کردی جائے گی کہ وہ آپسی خونریزی کا شکار رہیں اور ہتھیاراور لیتھیم کا کاروبار چلتا رہے۔