’’ذرّوں سے یہ خورشید بجھایا نہ جائے گا‘‘

   

محمد نصیرالدین
شہریت ترمیمی قانون(CAA) نے سارے ملک میں اضطراب اور بے چینی کا ماحول پیدا کردیا ہے، صرف مسلمان ہی نہیں ہندو، سکھ، عیسائی، دلت، سماجی جہدکار‘ طلباء، فلمی ستارے، صحافی، بیورو کریٹس، چند پارٹیوں کو چھوڑ کر تمام سیاسی پارٹیاں مذہبی، سماجی تنظیمیں اور ادارے اس وقت اس بل کو واپس لینے کے مطالبہ کو لے کر احتجاج کررہے ہیں۔ جامعہ ملیہ کے جری، بہادر، نڈر، بے باک اور باہمیت طلباء و طالبات کو ہزاروں سلام جنہوں نے ساری قوم کو جھنجھوڑا اور سیاہ قانون کے خلاف اُٹھ کھڑے ہونے پر مجبور کردیا چنانچہ دہلی تا پانڈیچری، کیرلا تا ہریانہ، احمدآباد سے اترپردیش، بہار سے مہاراشٹر ملک کی تمام ریاستوں اور سبھی چھوٹے بڑے شہروں میں عوام نے اس بل کے خلاف آواز اٹھائی، اپنی ناراضگی کا اظہار کیا اور اس بل کو واپس لینے کا مطالبہ بھی کیا۔ ’’ایمرجنسی ہٹاؤ مہم‘‘ کے بعد ہندوستانی تاریخ میں اس طرح کا احتجاج اور مظاہرہ کبھی دیکھنے کو نہیں ملا۔ بل مخالف مظاہروں کی خاص بات یہ رہی کہ بحیثیت مجموعی احتجاجی مظاہرے ریلیاں، جلسے اور دھرنے یکادُکا واقعات کو چھوڑ کر پرامن رہے اور ان مظاہروں اور احتجاج کی دوسری خصوصیت خواتین مطالبات کا پُرجوش انداز میں شانہ بہ شانہ حصہ لینا ہے۔
حسب روایت حکام اور پولیس کا رویہ ہر مقام پر ظالمانہ، متعصبانہ اور جانبدارانہ دیکھا گیا۔ مزید یہ کہ مبینہ طور پر پولیس کے ڈریس میں آر ایس ایس کے کارکنوں کو سفاکی اور بربریت کا ننگا ناچ کھیلتے بھی دیکھا گیا چنانچہ پرامن مظاہرین پر نہ صرف لاٹھیاں برسائی گئیں، آنسو گیاس چھوڑی گئی اور گولیاں داغی گئیں۔ امن و قانون کے رکھوالوں نے ظلم و ستم کے نئے ریکارڈس قائم کئے۔ علیگڑھ اور جامعہ ملیہ میں معصوم اور نہتے طلباء کے ساتھ نہ صرف غیراخلاقی برتاؤ کیا بلکہ جامعہ ملیہ کی لائبریری، ویمنس ہاسٹل میں گھس کر طلباء و طالبات پر ناقابل بیان زیادتیاں کیں، اتنا ہی نہیں جامعہ ملیہ کی مسجد کے تقدس کو تک پامال کردیا۔ اسی طرح علیگڑھ مسلم یونیورسٹی میں بھی سفاکانہ انداز میں پرامن احتجاجیوں کو خاموش کرنے کی کوشش کی۔ لمحہ فکر یہ ہے کہ سارے ملک میں بل کو لے کر بلاتخصیص مذہب و ملت عوام میں غم و غصہ پایا جاتا ہے اور عوام نے پرامن احتجاج کے ذریعہ بل کے تئیں اپنی ناراضگی کے اظہار کی کوشش کی لیکن صرف بی جے پی اقتدار والی ریاستوں اور مرکز دہلی جہاں امن و قانون مرکز کے ہاتھ میں ہے، تشدد پھوٹ پڑا، پولیس نے بلااشتعال فائرنگ کی اور آسام، کرناٹک اور یوپی میں قیمتی جانیں ضائع ہوئیں، کئی عینی شاہدین نے گواہی دی کہ ان مقامات پر پولیس اور غیرسماجی عناصر نے تشدد بھڑکایا اور پرامن مظاہرین کو گولیوں کا نشانہ بنایا، اہل اقتدار اور امن و قانون کے محافظ پتہ نہیں، اس حقیقت کو کیوں بھول جاتے ہیں کہ
باطل سے دبنے والے ائے آسماں نہیں ہم
سو بار کرچکا ہے تو امتحاں ہمارا
جامعہ ملیہ کے طلباء و طالبات نے جس جرأت و ہمت کے ساتھ بل کے خلاف احتجاج کیا، وہ تاریخ کا ایک سنہری باب بن چکا ہے، تاہم دوسری طرف جامعہ ملیہ کے احتجاج نے کئی ایک شرمناک حقائق کو بھی آشکار کیا ہے۔ ملک کی راجدھانی دہلی جہاں مختلف دینی، فلاحی، سماجی اور سیاسی پارٹیوں کے دفاتر پائے جاتے ہیں، جہاں ارکان پارلیمان رہتے ہیں اور مختلف مذہبی، سماجی اور فلاحی تنظیموں کے رہنما بھی رہتے ہیں لیکن جامعہ ملیہ پر جب پولیس اور گمنام غنڈوں نے یلغار کی اور ملت کے سپوتوں پر لاٹھی برسا رہے تھے، ملت کی بیٹیوں کے ساتھ بدتمیزی کررہے تھے اور جامعہ ملیہ سے معصوم طلباء و طالبات کی آہ و فغاں بلند ہورہی تھی، شاہی مسجد سے لے کر پارلیمنٹ اسٹریٹ میں رہنے والے کسی قائد اور رہنما نے کان نہیں دھرا، ملت کی فکرمندی، خدمت اور بہی خواہی کا دم بھرنے والے کہیں نظر نہیں آئے لیکن اس تاریک شب میں ایک دینی جماعت کے نوجوان سربراہ ان معصوم طلباء و طالبات سے ہمدردی و یگانگت کے لئے موجود رہے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملت کے نام پر ووٹ حاصل کرکے پارلیمنٹ میں جانے والے خود کو مسلمانوں کا قائد کہلانے والے ارکان پارلیمان کدھر غائب ہوگئے تھے۔ کیا وہ اتنا بھی نہیں کرسکتے کہ ظلم و ستم کا شکار طلباء و طالبات کے سر پر ہاتھ رکھیں، کچھ ہمدردی کے بول ادا کریں اور ان کی تکلیف کو دور کرنے کی کوشش کریں؟ وائے افسوس ایسے وقت جبکہ سارے ملک میں بل کے خلاف اظہار ناراضگی کرتے ہوئے معصوم طلباء و طالبات جامعات سے نکل پڑے پولیس کی لاٹھیوں کا مقابلہ کرنے لگے اور آنسو گیاس اور پولیس کی گولیوں کو بھی برداشت کرتے رہے، قوم کے رہنما گوشۂ عافیت میں بیٹھے رہے۔ ایک شعلہ بیان قائد جھارکھنڈ میں ووٹوں کی تقسیم کا مقدس فریضہ ادا کرنے میں مصروف تھے۔ امام صاحب بل کی حمایت میں اپیل کرتے رہے اور ایک سجادہ نشین حکومت کی تائید میں بیان بازی کرنے لگے۔
شہریت ترمیمی بل کے خلاف برادران وطن ، سیاسی، سماجی تنظیموں، این جی اوز اور ملک کی مختلف جامعات کے طلباء میں آئی بیداری جہاں باعث اطمینان ہے، وہیں اس بل کے خلاف ان کا احتجاج میں حصہ لینا ہندو ۔ مسلم اتحاد کی علامت اور ہندوستان کے امن و اتحاد کے لئے نیا سنگ میل ثابت ہوگا۔ ملک بھر میں جاری احتجاج اور بل کے خلاف عوام کے غم و غصہ کے باوجود اہل اقتدار لگتا ہے کہ اس بل پر غور مکرر کے لئے تیار نہیں ہیں بلکہ اپنے ہٹ دھرم رویہ اور ناعاقبت اندیش بیانات کے ذریعہ ملک کی پرامن فضاء کو فرقہ وارانہ خطوط پر بانٹنے تشدد کو بھڑکانے، خوف و ہراس کے ذریعہ احتجاجیوں کو خاموش کرنے اور کالج و مراعات کے ذریعہ اس احتجاج کی لہر کو ختم کرنے کہ درپہ ہیں چنانچہ کلکتہ میں بل کی حمایت میں نکالی گئی ریالی اس منصوبہ کا ایک حصہ ہے۔ ملک کی تاریخ میں ’’شہریت ترمیمی بل‘‘ کے خلاف جاری یہ احتجاج اس لحاظ سے منفرد ہے کہ اس احتجاج کو کسی بھی رہنما قائد یا کسی بھی دینی، سیاسی یا سماجی تنظیم کی سرپرستی یا قیادت حاصل نہیں ہے بلکہ عوام ازخود اس بل کے خلاف اپنا غم و غصہ ظاہر کرنے اور حکومت کو متوجہ کرنے کے لئے بلاخوف و خطر سڑکوں پر نکل پڑے ہیں۔ بلالحاظ مذہب و ملت اس بل کے خلاف عوام کا سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جانا اور ہمت، حوصلہ اور بہادری کے ساتھ احتجاج کرنا یقیناً باعث مسرت اور قابل تحسین ہے لیکن اس بل کے خلاف صف آراء عوام و خواص کو یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ یہ ایک طویل صبرآزما جدوجہد ہے اور اس جدوجہد کو روکنے اور اسے ناکام بنانے کے لئے مرکزی حکومت کی کل مشنری اور برسراقتدار گروہ کے کارکن مشترکہ طور پر لگے ہوئے ہیں، اسی لئے سب سے اہم نکتہ جس پر بھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ بہرصورت احتجاج اور مظاہرے پرامن ہوں، کسی بھی زاویہ سے کہیں بھی، کسی قسم کا کوئی تشدد اور بدامنی پیدا نہ ہونے پائے اور لازماً تمام فرقوں ، گروہوں اور مذہبی اکائیوں کو اس جدوجہد میں شامل رکھنا چاہئے تاکہ یہ حقیقت ہمیشہ واضح رہے کہ یہ ایک عوامی جدوجہد ہے اور تمام مذہبی، لسانی اور علاقائی گروہ اس میں شامل ہیں۔ دوسری چیز جو اس احتجاج کو طویل مدت تک آگے بڑھانے اور حکومت پر دباؤ بڑھانے میں معاون بن سکتی ہے، وہ ’’زنجیری بھوک ہڑتال‘‘ ہے چونکہ فی الفور اس مسئلہ کا حل نکلنے کے آثار نہیں ہیں چنانچہ ملک کے تمام اہم شہروں میں زنجیری بھوک ہڑتال کے کیمپ لگائے جانے چاہئے اور اس وقت تک یہ سلسلہ جاری رہے جب تک کہ حکومت بل کے متعلق کوئی واضح فیصلہ نہیں کرتی۔ تیسری چیز جو اس بل کے خلاف کی جانی چاہئے ، وہ تمام ریاستی حکومتوں چاہے بی جے پی کی ہوں یا غیربی جے پی کی ہو، ان سے پرزور نمائندگی کی جائے اور اس بل کے سماجی، معاشی اور معاشرتی مضمرات اور منفی نتائج سے آگاہ کرتے ہوئے ان سے مطالبہ کیا جائے کہ وہ اس بل کو ان کی ریاست میں لاگو نہیں کریں گے اور مرکزی حکومت پر بل کے خلاف دباؤ بنائیں۔ چوتھی چیز جس کی طرف فی الفور توجہ کی ضرورت ہے کہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں لوک سبھا اور راجیہ سبھا کے سارے ارکان سے ان کے متعلقہ حلقہ کے عوام ملاقات کریں، ان کے گھر پر دھرنا دیں اور اس عوام مخالف اور دستور کی اسپرٹ کے مغائر بل کے خلاف آواز اٹھانے پر مجبور کریں۔ پانچویں چیز جو بل کی مخالفت میں کی جانی چاہئے وہ یہ ہے کہ اس بل کے مضمرات اور نقصانات کے متعلق عوام و خواص کو واقف کروانے کے لئے قومی و علاقائی زبانوں میں لٹریچر تیار کیا جائے اور عوام کے اندر شعور بیداری پیدا کی جائے، اسی طرح ملک کی تمام زبانوں کے اخبارات و رسائل میں بل سے متعلق پُرمغز مضامین شائع کئے جائیں، اسی طرح الیکٹرانک میڈیا میں مباحث اور گفتگو میں حصہ لینے کیلئے تمام زبانوں میں مضبوط ٹیمیں بنائی جائیں۔ چھٹی چیز جس کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے وہ یہ کہ اس بل کے خلاف احتجاج کے دوران پولیس ظلم و ستم کا جو لوگ شکار ہوئے ہیں۔ گرفتار ہوئے یا زخمی یا ہلاک ہوئے ہیں، ان کی اور ان کے خاندانوں کی دادرسی اور امداد کی جائے، ایسا نہ ہو کہ اس کے مصائب کو دیکھ کر دیگر نوجوان ایجی ٹیشن اور احتجاج سے خدانخواستہ دستبردار ہوجائیں اور بل مخالف مہم کمزور پڑجائے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ملت اسلامیہ ہی کے کچھ لوگوں نے چند ٹکوں اور حقیر منصبوں کی خاطر ملت سے غداری کی اور مخالف طاقتوں کے آلہ کار بن کر ملی مفاد کو نقصان پہنچایا ہے۔ آج اس بل کو کامیابی دلانے میں ایسے ہی لوگوں کا رول دیکھا گیا ہے چنانچہ راجیہ سبھا میں 13 مسلم ارکان نے یہی فریضہ انجام دیا کتنے شرم کی بات ہے کہ یہ ارکان جن کو ’’مسلمان‘‘ ہونے کی وجہ سے راجیہ سبھا کی سیٹ ملی لیکن وہ اپنی ہی ملت کے خلاف رول ادا کررہے ہیں۔
میر جعفر اور میر صادق کے پیروؤں نے اس بل کی تائید میں جو رول ادا کیا ہے، وہ ناقابل معافی جرم ہے، کم از کم اگر وہ رائے دہی کا بائیکاٹ بھی کرے ہوتے تو صورتحال کچھ دوسری ہوتی، اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کو اس غداری کی سزا دی جائے اور یہ اسی وقت ہوسکتا ہے جب ساری ملت ان سے کنارہ کشی اختیار کرے، ان سے تمام راہ و رسم ختم کرلے یا تو وہ معافی مانگیں اور استعفیٰ دیں یا پھر اس بل کے خلاف احتجاج کا حصہ بن جائیں۔ جب ملت اسلامیہ اس طرح سبق سکھائے گی تو آئندہ کسی کو بھی اس طرح کی مجرمانہ حرکت کرنے کی جرأت نہیں ہوسکے گی۔
ملت اسلامیہ کو یہ بات واضح طور پر ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ ان کا جینا اور مرنا اللہ اور اللہ کے رسول کی نسبت سے ہے۔ چاہے شہریت باقی رہے یا چلی جائے، انہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن یہ ناگزیر ہے کہ وہ دولت ایمان کو اپنے سینے سے لگائے ہوئے رکھیں کیوں کہ دولت ایمان ہی مومنوں کا کل اور اصل سرمایہ ہے! اقتدار وقت کو اگر یہ خوش فہمی ہے کہ ’’شہریت بل‘‘ لاکر وہ مسلمانوں کو خوف و ہراس میں مبتلا کرکے یا دہشت زدہ کرکے مرتد بنادیں گے اور اسلام سے ان کی وابستگی کو ختم کردیں گے تو یہ ان کی سراسر خام خیالی اور احمقانہ سوچ ہے۔ اہل اقتدار کو یہ بات واضح انداز میں گرہ میں باندھ لینی چاہئے کہ مسلمان جان و مال اور گھر بار کو تج دے سکتا ہے لیکن اپنے ایمان پر آنچ آنے کو وہ برداشت نہیں کرسکتا۔ لہذا اہل اقتدار کو چاہئے کہ وہ اپنے پوشیدہ خفیہ منصوبہ کو روبہ عمل لانے کیلئے اس بل کے تئیں ضد اور ہٹ دھرمی کو ترک کریں اور عوام کی طاقت اور قوت کو محسوس کرتے ہوئے ملک میں امن چین ہندو۔ مسلم اتحاد اور بھائی چارہ کو فروغ دینے کیلئے اس متنازعہ قانون سے دستبرداری کا اعلان کریں کیونکہ سلامتی اور امن و آشتی کی برقراری کا یہ واحد راستہ ہے اور اسی راہ پر چل کر یہ عظیم ملک ترقی کرسکتا ہے، ورنہ جس طرح جھارکھنڈ میں عوام نے انہیں بے آبرو کیا بہت جلد سارے ملک میں وہ ذلیل و خوار ہوجائیں گے اور اس اقتدار کا کیا فائدہ جو عوامی اُمنگوں اور خواہشوں کو کچل کر ملک کے اتحاد اور سلامتی کے لئے مسائل کھڑے کرتا ہو۔ کاش کہ اہل اقتدار اور ان کے حواری اس حقیقت کو سمجھ پائیں :
باطل جو صداقت سے الجھتا ہے تو اُلجھے
ذرّوں سے یہ خورشید بجھایا نہ جائے گا