راجستھان ‘ مدھیہ پردیش اور بی جے پی

   

انتخابات کے موسم میںہر سیاسی جماعت میں اختلافات دکھائی دیتے ہیں۔ ٹکٹ کے خواہشمند افراد کو اگر اس سے محروم کردیا جائے تو ان میںناراضگی پیدا ہونا فطری بات ہے ۔ اس کے علاوہ دوسری جماعتوں سے شمولیت اختیار کرنے والے قائدین کو موقع دینے پر پہلے سے موجود قائدین ناراض ہوجاتے ہیں۔ کچھ قائدین کو اگر پارٹی کی جانب سے عمدا نظر انداز کیا جاتا ہے تو ان کے تیور باغیانہ ہوجاتے ہیں اور وہ پارٹی کے امیدواروں کو نقصان پہونچانے میدان میں اترنے سے بھی گریز نہیں کرتے ۔ اب جبکہ ملک کی پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات کا ماحول گرم ہونے لگا ہے او ر سیاسی سرگرمیاں تیز ہوگئی ہیں ایسے میں بی جے پی کیلئے راجستھان اور مدھیہ پردیش میںمشکلات میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے ۔ جو انتخابی سروے اب تک منظر عام پر آئے ہیں ان کے مطابق مدھیہ پردیش میں بی جے پی کو کراری شکست ہوسکتی ہے جبکہ راجستھان کے تعلق سے بھی کانگریس انتہائی پر امید ہے کہ یہاں پارٹی اپنے اقتدار کو بچانے میں کامیاب ہوگی اور بی جے پی کو شکست کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ بی جے پی ان دو ریاستوں پر خاص توجہ دے رہی ہے ۔ بی جے پی چاہتی ہے کہ کسی طرح مدھیہ پردیش میں اقتدار بچ جائے اور راجستھان میںاقتدارر حاصل ہوجائے تاہم اس کی یہ کوششیں فی الحال کامیاب ہوتی نظر نہیں آ رہی ہیں۔ دونوں ہی ریاستوں میں کانگریس کے حوصلے کافی بلند دکھائی دے رہے ہیں اور کانگریس ایک انتہائی منظم حکمت عملی کے ساتھ کام کر رہی ہے ۔ وہ عوام کے موڈ کو سمجھتے ہوئے اپنی منصوبہ بندی پر عمل کر رہی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کانگریس کے امکانات ان ریاستوں میں بھی بہتر دکھائی دے رہے ہیں۔ تاہم ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ بی جے پی کو ان دونوں ہی ریاستوں میں داخلی اختلافات اور خلفشار کا سامنا ہے ۔ بی جے پی کے کئی قائدین یہاں اپنے امیدواروں سے ناراض ہیں۔ کچھ ارکان اسمبلی کو ٹکٹ سے محروم کردیا گیا ہے اور نئے امیدوار میدان میں لائے گئے ہیں۔ یہ حکومت مخالف لہر کا اثر توڑنے کی کوشش ہے لیکن اس سے داخلی ناراضگیاں عروج پر پہونچ چکی ہیں۔
راجستھان میں سابق چیف منسٹر وسندھرا راجے سندھیا کو نظر انداز کرنے کا سلسلہ شروع ہوا تھا اور ان کی ناراضگی عام ہوتے ہیں اس کے نقصانات کا بی جے پی نے جائزہ لیا ۔ وسندھرا راجے کو پہلی فہرست میں ٹکٹ تک نہیں دیا گیا ۔ ان کے حامی بھی اس فہرست میں جگہ پانے میں ناکام رہے تھے ۔اس کے بعد جب امکانی نقصانات اور عوامی موڈ کا اندازہ ہوا تو پھر دوسری فہرست میںوسندھرا راجے کو بھی ٹکٹ دیا گیا اور ان کے حامیوں کو بھی ان کے حلقوں سے امیدوار بنادیا گیا ۔ یہ در اصل نقصان سے بچنے کی کوشش تھی تاہم اس وقت تک عوامی موڈ پر اس کے جو اثرات مرتب ہونے تھے وہ ہوگئے ۔ یہی حال تقریبا مدھیہ پردیش کا بھی تھا ۔ مدھیہ پردیش میں موجودہ چیف منسٹر شیوراج سنگھ چوہان کو بھی وزارت اعلی کا امیدوار تو دور کی بات ہے اسمبلی کیلئے بھی امیدوار بنانے میں پس و پیش کیا گیا ۔ جب شیوراج سنگھ چوہان نے ہلکے سے باغیانہ تیور دکھائے اور بالواسطہ طور پر اپنی ناراضگی کا اظہار کیا تو انہیں بھی بعد میں اسمبلی ٹکٹ دیا گیا اور حالات بہتر بنانے کی کوشش کی گئی ۔ بی جے پی در اصل اس معاملے میں اپنی ہی حکمت عملی سے نقصان کی طرف جاتی دکھائی دے رہی ہے ۔ بی جے پی سینئر قائدین کو نظر انداز کرتے ہوئے نئے چہرے متعارف کروانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور یہ پالیسی پرانے قائدین کو ناراض کرنے کا سبب بن گئی ہے ۔ اس کے نتیجہ میں کانگریس کو حالات سے فائدہ اٹھانے اور اپنے امکانات کو بہتر بنانے کا موقع ملا ہے ۔
ہر بار کے انتخابات میں یہ دیکھا جاتا رہا تھا کہ کانگریس میں داخلی اختلافات شدت سے دکھائی دیتے تھے ۔ کئی قائدین ناراض ہوتے او رپارٹی سے کنارہ کشی اختیار کرلیتے ۔ کچھ ناراضگیاں اب بھی ہوئی ہیں لیکن اس معاملے میں بی جے پی بہت زیادہ متاثر ہوئی ہے ۔ کئی قائدین نہ صرف ناراض ہوئے بلکہ انہوں نے پارٹی سے کنارہ کشی اختیار کرلی ۔ وہ یا تو کانگریس میں شامل ہو رہے ہیں یا پھر آزاد مقابلہ کرنے میدان میں آ رہے ہیں۔ یہ صورتحال بی جے پی کیلئے نئی ہے اور اس کے نتیجہ میں راجستھان اور مدھیہ پردیش جیسی دو اہم اور ہندی ریاستوں میں بی جے پی کی مشکلات میں اضافہ ہونے لگا ہے ۔