راجستھان میں ماحول بگاڑا جا رہا ہے

   

محفلوں میں اپنے لہجے کا بھی رکھئے گا خیال
بے تکلف ہی سہی انداز شائستہ رہے
راجستھان میں ہوئے حالیہ اسمبلی انتخابات میں کانگریس کو شکست دیتے ہوئے بی جے پی نے اقتدار پر واپسی کی ہے ۔ راجستھان میں یہ روایت تین دہوں سے چلی آ رہی ہے کہ ہر معیاد کے بعد اقتدار کو تبدیل کیا جاتا ہے اور اسی روایت کی برقراری کے ساتھ بی جے پی کو اقتدار حاصل ہوا ہے تاہم ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی اور خاص طور پر اس کے ہوا محل کے رکن اسمبلی ریاست میںماحول کو بگاڑنے کی کوشش میںمصروف ہوگئے ہیں۔ ویسے تو بی جے پی اپنے اقتدار والی ریاستوں میں کسی نہ کسی لیڈر یا عوامی نمائندے کو زہر افشانی کرنے اور مسلم دشمنی کا سلسلہ شروع کرنے کی کھلی اجازت دیتی ہے اور اس سے سیاسی فائدہ حاصل کرنے میںکوئی کسر باقی نہیں رکھتی ۔ اب ایسا لگتا ہے کہ راجستھان میں یہ سلسلہ منظم انداز میںشروع کردیا گیا ہے ۔ راجستھان کے جئے پور شہر میںہوا محل حلقہ سے بی جے پی ٹکٹ پر منتخب رکن اسمبلی بال مکند اچاریہ نے اپنے مذہبی حلیہ کا استحصال کرتے ہوئے ماحول کو پراگندہ کرنے کی کوششیں شروع کردی ہیں۔ بال مکند بی جے پی کے چند مفاد پرست حواریوں کی مدد سے رکن اسمبلی منتخب ہوئے تھے ۔ انہیں بہت معمولی اکثریت حاصل ہوئی تھی ۔ رکن اسمبلی منتخب ہونے کے فوری بعد بال مکند نے حلف لینے سے قبل ہی اپنے تیور دکھانے شروع کردئے تھے ۔ انہوں نے اپنے حلقہ انتخاب میں گھوم گھوم کر مسلم تاجروں کی دوکانات کو نشانہ بنانے کی مہم شروع کی تھی ۔ گوشت کی دوکانات کو بند کردینے کے احکام جاری کئے تھے ۔ مسلم باشندوں کی ہوٹلوں کو بند کرنے کی کوششیں شروع کردی گئی تھیں۔ انہوں نے رکن اسمبلی کی حیثیت سے حلف لینے سے قبل ہی یہ تیور دکھانے شروع کردئے تھے اور راجستھان کا انتظامیہ اور پولیس ان کے اشاروں پر کام کر رہی تھی ۔ ابھی یہ سلسلہ کسی قدر تھمنے ہی پایا تھا کہ بال مکند نے اب راجستھان میں بھی حجاب کا مسئلہ چھیڑنے کی کوشش شروع کردی ہے ۔ یوم جمہوریہ کے موقع پر ایک اسکول کا دورہ کرتے ہوئے بال مکند نے کچھ مسلم طالبات کے حجاب پہننے پر اعتراض کیا اور ان کے خلاف مبینہ طور پر نازیبا ریمارکس کئے ۔
بال مکند کے اس طرز عمل کے خلاف طالبات اور اولیائے طالبات نے شہر میںاحتجاج بھی کیا ۔ راجستھان کی بی جے پی حکومت یا اس کے چیف منسٹر یا کسی اور ذمہ دار لیڈر نے اس مسئلہ پر کوئی وضاحت کرنی ضروری نہیںسمجھی بلکہ ایک وزیر نے تو حجاب کے خلاف ہی بیان بازی شروع کردی ۔ اس طرح یہ تاثر ملنے لگا ہے کہ راجستھان کی بی جے پی حکومت ایک منظم اور سوچے سمجھے انداز میں یہ مہم چلا رہی ہے تاکہ راجستھان میں بھی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے ماحول کو متاثر کیا جاسکے اور وہاں بھی فرقہ واریت کا زہر پھیلاتے ہوئے سیاسی فائدہ حاصل کیا جاسکے ۔ بی جے پی نے یہی طریقہ کار جنوبی ریاست کرناٹک میںاختیار کیا تھا ۔ کرناٹک میںاسمبلی انتخابات سے دو سال قبل سے یہ تنازعات پیدا کئے جا رہے تھے ۔ کبھی حجاب کا مسئلہ اٹھاتے ہوئے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو متاثر کیا گیا تو کبھی حلال گوشت کے مسئلہ پر سیاست کرنے کی کوشش کی گئی ۔ کبھی کوئی مسئلہ اٹھایا گیا تو کبھی کسی اور مسئلہ کے ذریعہ فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے سے گریز نہیں کیا گیا ۔ بی جے پی کو امید تھی کہ ان مسائل سے اسے سیاسی فائدہ مل سکتا ہے ۔ تاہم جنوبی ریاست کرناٹک کے رائے دہندوں نے بی جے پی کی اس کوشش کو یکسر مسترد کردیا ۔ اس کے منصوبوںکو ناکام بناتے ہوئے انتخابات میںاسے سبق سکھایا گیا ۔ بی جے پی کو کرناٹک میں کراری شکست ہوئی ۔ راجستھان میں بی جے پی نے حکمت عملی وہی رکھی ہے تاہم وقت کو تبدیل کردیا گیا ہے ۔
راجستھان میںانتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد یہ مہم شروع کی گئی ہے ۔ ریاستی انتظامیہ اور پولیس پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد یہ سلسلہ شروع کیا گیا ہے تاکہ لوک سبھا انتخابات میں کامیابی حاصل کی جاسکے ۔ ریاست اور عوام کو درپیش مسائل پر توجہ کرنے اور عوام کو سہولیات فراہم کرتے ہوئے ان کے حالات زندگی کو بہتر بنانے کی بجائے حسب روایت فرقہ وارانہ ہم آہنگی سے کھلواڑ کیا جا رہا ہے ۔ اس ریاست کو بھی ہندوتوا کی تجربہ گاہ بنانے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ ایسی کوششوں کو ناکام بنانے کی ضرورت ہے ۔ سماج میںفرقہ وارانہ ہم آہنگی کو متاثر کرنے کی کسی کو بھی اجازت نہیںدی جانی چاہئے ۔