راجستھان ‘ کیا روایت تبدیل ہوگی ؟

   

ملک کی پانچ ریاستوں میںاسمبلی انتخابات کیلئے اعلامیہ کی عنقریب اجرائی کی امید ہے ۔ ہر ریاست میں سیاسی سرگرمیاں تیز ہوگئی ہیں۔ جہاںحکومتیں اپنے اقتدار کو برقرار رکھنے کوشاں ہیں وہیںاپوزیشن جماعتیں اقتدار پر واپسی کرنا چاہتی ہیں۔ اپنے اپنے طور پر انتخابی منصوبے تیار کئے جا رہے ہیں۔ عوام سے وعدوں کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے ۔ انہیںسبز باغ دکھائے جا رہے ہیں۔ مدھیہ پردیش ‘ راجستھان ‘ چھتیس گڑھ ‘ تلنگانہ اور میزورم میں انتخابات ہونے والے ہیں۔ مدھیہ پردیش میں کانگریس کی اقتدار پر واپسی یقینی دکھائی دے رہی ہے ۔ وہاں بھی کرناٹک جیسے حالات ہیں جہاںکانگریس نے بی جے پی کو اقتدار سے بیدخل کرتے ہوئے خود حکومت بنائی ہے ۔ چھتیس گڑھ میں کانگریس اقتدار کی برقراری طئے دکھائی دے رہی ہے ۔ تلنگانہ میں کانگریس پوری طاقت لگا رہی ہے تاکہ بی آر ایس کو بیدخل کرتے ہوئے خود اقتدار پر واپسی کرسکے ۔ میزورم میںعلاقائی عوامل انتخابی نتائج پر حاوی ہوسکتے ہیں۔ اصل مسئلہ راجستھان کا ہے جہاںہر پانچ سال میںاقتدار کی تبدیلی کی روایت ہے ۔ کئی مرتبہ سے ایسا ہوتا ہے کہ پانچ سال بی جے پی اور پانچ سال کانگریس کو اقتدار حاصل رہتا ہے ۔ تاہم اس بار کانگریس پارٹی اس روایت کو تبدیل کرنے کی پوری کوشش کر رہی ہے ۔ جہاں تک حالات کی بات ہے تو حالات بھی اس کیلئے سازگار دکھائی دے رہے ہیں۔ حالانکہ قطعی نتائج تو عوام کے ہاتھ میں ہونگے اور ان کے ووٹ سے ہی فیصلہ ہوگا تاہم جو حالات دکھائی دے رہے ہیں ان کے مطابق کانگریس پوری کوشش کے ساتھ ہر پانچ سال میںاقتدار کی تبدیلی کی روایت کو تبدیل کرنے کی جدوجہد کر رہی ہے ۔ چیف منسٹر اشوک گہلوٹ نے گذشتہ چند مہینوں میں عوامی مقبولیت والی اسکیمات کا اعلان کیا ہے ۔ عوام کیلئے راحت کے کئی اعلانات کئے گئے ہیں۔ ریاست میں گیس سلینڈر پانچ سو روپئے میںفراہم کیا جا رہا ہے ۔ یہ ایک اہم فیصلہ تھا جس سے عوام اور خاص طور پر خواتین کو سہولت ہو رہی ہے ۔اس کے علاوہ بھی چیف منسٹر گہلوٹ نے ریاست کے عوام کیلئے کئی اعلانات کئے ہیں۔
کانگریس میں اشوک گہلوٹ اور سچن پائلٹ میں جو دوریاں تھیں وہ بھی پارٹی قیادت کی کوششوں سے دور ہوچکی ہیں۔ سچن پائلٹ بھی اب ایسا لگتا ہے کہ اختلافات کو فراموش کرتے ہوئے وقت اور حالات کی نزاکت کو محسوس کرچکے ہیں۔ وہ بھی چیف منسٹر پر تنقید کرنے کی بجائے اتحاد کے ساتھ عوام سے رجوع ہونے کی بات کر رہے ہیں۔ عوام کو دوبارہ کانگریس کے حق میںووٹ ڈالنے کی ترغیب دینے میں مصروف ہیں۔ جو قائدین ایک دوسرے کے خلاف بیان بازیاں کر رہے تھے وہ بھی بند ہوچکی ہیں۔ ساری ریاستی یونٹ اور حکومت کو ایک رائے بنانے میں کانگریس صدر ملکارجن کھرگے کے علاوہ راہول گاندھی اور پرینکا گاندھی نے اہم رول ادا کیا ہے ۔ کانگریس کے مرکزی قائدین بھی ریاست کے دورے کرتے ہوئے عوام کو ہمنواء بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ گہلوٹ حکومت کے کاموں کو عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے ایک اور معیاد کیلئے ووٹ مانگ رہے ہیں۔ دوسری طرف بی جے پی میں سب کچھ ٹھیک دکھائی نہیں دے رہا ہے ۔ پارٹی کی مرکزی قیادت اور سابق چیف منسٹر وسندھرا راجے میںسرد جنگ تھمنے کا نام نہیںلے رہی ہے ۔ پارٹی مرکزی قیادت نے راجستھان کے امور میں وسندھرا راجے کو عملا نظر انداز کرنا شر وع کردیا ہے اور وسندھرا بھی اپنی ناراضگی کو چھپانے تیار نہیں ہیں ۔ وہ کھل کر اظہار خیال کر رہی ہیں اور راجستھان کی سیاست میںاپنے وجود کو منوانے کی اپنی جانب سے پوری کوشش کر رہی ہیں۔
بی جے پی کے کئی قائدین ایسے ہیں جو مرکزی قیادت اور وسندھرا راجے کی سرد جنگ کا شکار ہونے لگے ہیں۔ وہ کسی ایک فریق کی تائید اور کسی دوسری کی مخالفت سے پریشان ہوچلے ہیں۔ جہاںبی جے پی کے اختلافات پارٹی کیلئے مسائل کا سبب بن سکتے ہیں وہیں کانگریس قائدین کا اتحاد بھی ان کیلئے مشکلات کا باعث بن رہا ہے ۔ کانگریس کو اپنی حکمت عملی پر یقین ہے اور وہ سمجھتی ہے کہ وہ ہر پانچ سال میں اقتدار کی تبدیلی کی روایت کو تبدیل کرنے میں کامیاب ہوگی ۔ راجستھان کے عوام کو اصل فیصلہ کرنا ہے اور دیکھنا یہ ہے کہ آیا اقتدار تبدیل ہوتا ہے یا پھر اقتدار تبدیل کرنے کی روایت تبدیل ہوتی ہے ۔