رمضان کے آخری دہے میں غفلت

   

دنیا کی کسی چیز کو قرار و ثبات نہیں۔ کلی کھلتی ہے، مسکراتی ہے، پھر مرجھا جاتی ہے۔ سورج طلوع ہوتا ہے، اپنے شباب پر آتا ہے، پھر ڈھلتا ہے اور غروب ہوجاتا ہے۔ رات کی تاریکی چھاتی ہے، تارے جھلملانے لگتے ہیں، پھر سورج کی کرنیں رات کی تاریکی کو سپیدۂ سحر میں تبدیل کردیتی ہیں۔ اسی طرح رمضان المبارک اپنی بے شمار نعمتوں اور برکتوں کے ساتھ ہم پر سایہ فگن ہوا، اپنے انوار و برکات میں ہمیں ڈھانپ لیا اور اب اس کی جدائی کا وقت آگیا۔ رمضان ہمارے پاس چند دنوں کے لئے مہمان بن کر آیا، تاکہ وہ ہمارے ساتھ رہ کر ہمارے دل کا زنگ دھو دے اور اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت و اطاعت کا رنگ چڑھادے۔ تقویٰ و خشیت کے بیج بوئے، نیک اعمال سے دل کی کھیتی کو سیراب کردے، تاکہ ہم پاکیزہ و پرسکون زندگی گزارسکیں اور اللہ تعالی کی رضا و خوشنودی سے سرفراز ہوں۔ ہم نے اس مہمان کا استقبال کیا، اس کی خاطر و مدارات کی۔ پھر جوں جوں دن گزرے ہمارے دل سے اس مہمان کی تعظیم و تکریم کم ہوتی چلی گئی اور آخری دہے میں تو خرید و فروخت اور دیگر فضولیات میں منہمک ہو کر اپنے مہمان کو تنہا چھوڑ دیا۔ جب کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان المبارک کا نہ صرف حد درجہ اہتمام فرمایا، بلکہ اپنی ساری امت کو بھی اس کی قدر کرنے اور اس ماہ مبارک میں زیادہ سے زیادہ عبادت کرنے کی تلقین فرمائی۔
حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ جب رمضان کی آمد ہوتی تو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا رنگ متغیر ہوجاتا اور آپ نمازوں کی کثرت فرماتے۔ عاجزی اور آہ زاری سے دعائیں کرتے اور خوف کے آثار ظاہر رہتے۔ (بیہقی)
حضور نبی کریم ﷺوقفہ وقفہ سے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی رمضان المبارک سے بھرپور استفادہ کی تلقین فرماتے اور اس میں سستی، لاپرواہی اور غفلت سے متنبہ فرماتے۔ چنانچہ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺنے ایک دن ارشاد فرمایا (جب کہ رمضان شروع ہو چکا تھا) ’’برکت والا مہینہ تمہارے پاس آچکا ہے۔ اس نے تم کو اپنی رحمتوں میں ڈھانپ لیا ہے، اس میں رحمت الہی کا نزول ہوتا ہے اور گناہ مٹادیئے جاتے ہیں، دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ اس ماہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ تمہارے عمل (کار خیر میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے) کو دیکھتا ہے اور تمہاری وجہ سے فرشتوں پر فخر کرتا ہے۔ پس تم اللہ تعالیٰ کو اپنی طرف سے کار خیر کرکے بتاؤ۔ یقیناً بدبخت ہے وہ شخص، جو اس ماہ مبارک میں اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم ہوجائے‘‘۔ (طبرانی)
حضور نبی کریم ﷺرمضان کی آمد کے ساتھ ہی کمر ہمت کس لیتے اور رمضان المبارک کے ختم ہونے تک کم سے کم آرام فرماتے اور آخری دہے میں اہل و عیال سے الگ ہوکر اعتکاف میں مشغول ہو جاتے۔
(رواہ ابن خزیمہ۔ احمد)
رمضان المبارک میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادات و تعلیمات کو تو ہم نے پڑھا، لیکن ہم اپنی زندگیوں کا جائزہ لیں کہ کس طرح ہم رمضان المبارک کے آخری دہے میں غفلت و لاپرواہی کا شکار ہو گئے، حتی کہ تراویح میں ایک قرآن پاک سن کر نماز تراویح کو بھی خیرباد کہہ دیتے ہیں اور خواتین اپنا یہ قیمتی وقت خرید و فروخت میں گزاردیتی ہیں۔ ان کو نہ فرض نمازوں کی پرواہ ہوتی ہے اور نہ نماز تراویح کے اہتمام کا خیال۔ انھیں اس بات کی بھی فکر نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں رجوع ہوکر اپنے گناہوں اور خطاؤں کی بخشش و مغفرت طلب کریں۔ جب کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بازار کو سب سے بدترین مقام قرار دیا ہے اور حتی الامکان بازاروں میں گھومنے پھرنے سے منع فرمایا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا ’’تم راستوں پر بیٹھنے سے بچو‘‘ (اور اگر بیٹھتے ہو تو راستے کا حق ادا کرو) یعنی ’’نگاہوں کو نیچی رکھنا، تکلیف دہ چیز کو دور کرنا، سلام کا جواب دینا، نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا‘‘۔ (بخاری و مسلم)
عید کی خوشی اور اس کی تیاری کرنا، نئے لباس پہننا، زینت کا اظہار کرنا، درحقیقت اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا ہے، لیکن خرید و فروخت میں مصروف ہوکر فرائض کو ترک کرنا اور اپنے لئے بخشش و مغفرت طلب کرنے کی بجائے غفلت اور لاپرواہی میں وقت گزارنا، کس قدر نامعقول بات ہے۔ بہتر تو یہ ہے کہ عید کی تیاری رمضان المبارک سے قبل کرلی جائے، تاکہ یکسوئی سے ماہ رمضان میں عبادتیں کی جائیں اور اگر کچھ ضروری چیز رہ گئی ہو تو اس کی خریداری بقدر ضرورت کرلی جائے۔
بازاروں کی صورت حال کچھ ایسی ہے کہ جوان لڑکیاں سرپرستوں کے بغیر عید کی شاپنگ کے نام پر نکلتی ہیں، بازاروں میں گھنٹوں اپنا وقت صرف کرتی ہیں، دوکان میں کام کرنے والے لڑکوں سے بے جا گفتگو کرتی ہیں، علاوہ ازیں جو شرپسند نوجوان لڑکے بُری نیت سے بازاروں میں گھومتے ہیں، رمضان کی مبارک ساعتوں میں رحمت الہی کے حقدار ہونے کی بجائے اللہ تعالیٰ کی لعنت کے مستحق ہوتے ہیں۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف لائے اور تین مرتبہ آپ نے آمین کہا۔ صحابۂ کرام کے استفسار پر آپ نے فرمایا کہ ’’جبرئیل علیہ السلام میرے پاس آئے اور کہا جو شخص رمضان کو پائے اور اس کی بحشش نہ ہو تو وہ آگ میں گیا (یعنی اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنی رحمت سے دور کردیا)۔ میں نے آمین کہا۔ انھوں نے کہا جو شخص اپنے ماں باپ کو یا ان میں سے کسی ایک کو پائے اور ان کے ساتھ حسن سلوک نہ کرے اور انتقال کرجائے تو وہ آگ میں گیا اور اللہ نے اس کو (اپنی رحمت سے) دور کردیا۔ میں نے کہا آمین۔ پھر حضرت جبرئیل علیہ السلام نے کہا جس شخص کے پاس میرا (یعنی حضور اکرم ﷺ کا) ذکر ہو اور وہ مجھ پر درود نہ پڑھے اور انتقال کرجائے تو وہ آگ میں گیا اور اللہ نے اس کو (اپنی رحمت سے) دور کردیا۔ (اس پر بھی) میں نے آمین کہا‘‘۔ (ابن حبان)
رمضان المبارک میں رحمت الہی جوش میں ہوتی ہے، مغفرت کے پروانے بٹتے ہیں، دعائیں قبول ہوتی ہیں، مانگنے والے محروم نہیں ہوتے، مرادیں برآتی ہیں، دربارِ الہی سے ہاتھ محروم نہیں لوٹائے جاتے۔ ایسے مبارک مہینہ کو ضائع کرنا اور اس سے کماحقہٗ استفادہ نہ کرنا کم نصیبی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو رمضان المبارک کی خصوصی رحمتوں سے سرفراز فرمائے اور اس کے مابقی لمحات کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)